!!لوٹ کر پھر نہیں آؤں گا چلا جاؤں گا

لوٹ کر پھر نہیں آؤں گا چلا جاؤں گا
تُجھ کو اک خواب دکھاؤں گا چلا جاؤں گا

اس لیے شہر میں آنے سے ترے بچتا ہوں
بس ترا کام بڑھاؤں گا چلا جاؤں گا

میں کہ تہمت ہی اٹھانے کے لئے آیا ہوں
سو میں تہمت ہی اٹھاؤں گا چلا جاؤں

دل لبھاتے ہیں بہت تیری گلی کے قصے
میں بھی کچھ نام کماؤں گا چلا جاؤں گا

کچھ نہیں اور تو اس دل کی تسلی کے لیے
تُجھ کو آواز لگاؤں گا چلا جاؤں گا

2

جو تیرے در سے ربط ہے توڑا نہ جائے گا
تو چھوڑ دے ہمیں تجھے چھوڑا نہ جائے گا

پڑھتے رہیں گے تُجھ کو توقف کیے بغیر
کوئی ورق کتاب کا موڑا نہ جائے گا

تُجھ سے ترا سلوک بھی الله کی پناہ
سو تُجھکو تیرے حال پہ چھوڑا نہ جائے گا

دشمن ہے تیری گھات میں تو جانتا نہیں
تو ایڑ بھی لگائے تو گھوڑا نہ جائے گا

مجھکو سلامتی کی دعائیں نہ دیجیے
اس ڈوبتے جہاز کو چھوڑا نہ جائے گا

3

لمس کا ترجمان روشن ہے
گال پر اک نشان روشن ہے

اُس کی آنکھوں نے تربیت کی ہے
مجھ پہ سارا جہان روشن ہے

اِس زمیں پر تمہارے پاؤں پڑے
اس لیے آسمان روشن ہے

پھوٹتی ہیں کہانیاں جس سے
گھر میں اِک پاندان روشن ہے

کون بیٹھا ہے ناؤ میں میری
آج تو بادبان روشن ہے

اِک دیا گھر کا آفتاب ہوا
اور اب خاندان روشن ہے

ڈاکٹر سرفراز نواز
پروفیسر
شعبہ انگریزی، شبلی نیشنل کالج اعظم گڈ ھ