کچلی ہوئی زمین (افسانہ )

By — ریاض معصوم قریشی

اس کو دیکھ کر کسی بن مانس کا تصور آتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے ؟ اس کے متعلق مشہور تھا کہ ایک دن وہ لوگوں کو سڑک کے بیچ کچھ اس طرح جھکا ہوا نظر آیا کہ جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو ۔اس سے زیادہ اس کے متعلق اور کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔ اور جہاں کہیں بھی وہ نظر آتا تھا تو ہمیشہ زمین کو سونگھتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔۔اور پھر جیسے کچھ نہ پاکر ، چہرے پر درد و کرب کے آثار لۓ ، وہ کچھ اس انداز سے آگے بڑھ جاتا جیسے اس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو۔ حلانکہ اس دوران ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ لوگوں کا اژدہام متحیرانہ انداز میں اس کا تعاقب کرتا۔۔۔ کچھ لوگوں کو اس پر غصہ آجاتا اور کچھ دیوانہ سمجھ کر اس کی حرکتوں سے محفوظ ہو جاتے۔۔

ہنگاموں کے اس شہر میں اب وہ غیر معروف نہیں تھا۔۔ظاہر ہے اس کی وجہ اس کی عجیب و غریب حرکتیں ہی تھیں۔ ورنہ یہاں کون کس کو پوچھتا تھا۔ سب اپنے میں، اپنی ذات میں ایسے مگن تھے جیسے کسی دوسری شئے کا وجود نہیں ہو۔ مختصراؔؓ وہ لوگوں کے لیے کسی درد سر سے کم نہ تھا۔ پہلے پہل سب اسے پاگل خیال کرنے لگے تھے لیکن اس دن انہیں اپنا خیال بدلنا پڑا جب کسی نے ہمت کر کے اس کا بازو پکڑ کر اسے ایک طرف ہٹانے کی کوشش کی تھی لیکن کیا مجال ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلا ہو ۔ بعد میں اور لوگوں نے بھی اسے کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جم کر رہا۔۔۔۔۔اور پھر ایک بھگدڑ مچ گئی۔۔ لوگ بھاگنے لگے کچھ اس طرح جیسے موت ان کے تعاقب میں ہو۔

لوگوں کے اس طرح بھاگنے کی وجہ یہ تھی ، کہ کسی نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ وہ یا کوئی بھوت ہے یا اسی طرح کی کسی مافوق الفطرت مخلوق سے تعلق رکھتا ہے۔۔ کسی نے اس خیال کی تصدیق کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے لوگ اس کا دیوانہ وار قہقہہ اس طرح سن رہے تھے جیسے وہ ان کے قریب ہو اور ان کی بوکھلاہٹ سے محظوظ ہو رہا ہو۔۔۔

” آخر تم یہاں کیا تلاش کر رہے ہو۔ ” ایک دن کسی چھوٹے بچے نے پوچھا۔

” یہاں روحوں کی غذا اگتی تھی اور اب بچہ۔۔۔۔”

پہلی بار لوگوں نے اسے بولتے دیکھا۔۔ اس کی آواز اتنی پر سکون تھی کہ وہاں پر جمع لوگوں کو لگا جیسے اس تیز دھوپ میں کسی نے ان پر لفظوں کا سایہ کیا ہو ۔اور اس کے بعد لوگوں نے اسے ڈرنا چھوڑ دیا۔۔

” بھائی، تم کون ہو،،،؟ “

” تم مجھے جانتے ہو اور پہچان کر انجان بنتے ہو ۔۔۔۔ “

” یہ جھوٹ ہے ۔ میں تمہیں نہیں جانتا۔ “

” یہ سچ ہے کیونکہ میں نے تمہیں اجنبی نہیں سمجھا ۔”

تم تو بھائی مجھے کوئی فلسفی لگتے ہو ۔۔۔۔۔ کیا بہت زیادہ پڑھ کر ایسا ہوا ہے یا فلسفے کی ناقابل حل گتھیوں کو سلجھاتے سلجھاتے کوئی گتھی زمین نشین ہو گئی ہے ، کہ فلسفیوں کے سے انداز میں اس کی بو سونگھتے پھرتے ہو۔؟ “

” فلسفہ۔۔۔۔ ۔ فلسفے کی چٹکیوں سے کائنات کے کون سے مسائل حل ہوۓ ہیں۔ الٹا فلسفے نے حکمت و دانش کو بے حد ضرر پہنچایا ہے ۔۔ اور مختلف نظریات و ازمز (isms) کے خداوند کے بت تراشے ہیں، مذاہب کے اندر اور مذاہب کے باہر بھی۔ نتیجتاؔؔ دنیا میں بگاڑ پیدا ہوا۔”

” تم کہاں سے آئے ہو۔۔۔۔”

” میں آیا نہیں اگا ہوں۔۔۔۔” لوگ ہنستے ، کوئی تمسخرانہ لہجے میں دریافت کرتا۔۔

” کہاں سے اگے ہو۔۔ “

جہاں تم نے بارود بچھایا ہے۔۔ جہاں تم نے دنیا کی تباہی و بربادی کا سامان ذخیرہ کر رکھا ہے ۔ “

” پاگل ہے دیوانہ۔۔۔ دیوانے کا کیا منہ لگنا۔۔” لوگ ہنستے ہنستے اپنی راہ ہولیتے اور جو بھی اسے پاگل دیوانہ کہتا ، وہ خود کو اس کے پاگل ہونے پر کسی طرح بھی آمادہ نہیں کرپاتا۔۔

آج وہ شہر کے قلب کو جیسے کھنگال ڈالنے کا مکمل اراہ کر چکا تھا۔آگے بڑھنے والے ہر قدم کے ساتھ وہ مایوسانہ انداز میں اپنا سر زور زور سے ہلاتا۔۔۔۔ اور پھر ایک جگہ وہ یوں زمین سے کان لگانے لگا جیسے کچھ سننے کی کوشش کررہا ہو۔ دفتاؔؔ اس کی آنکھوں میں خوشی سے بھرپور چمک عود کر آئی۔۔۔دو چار گز زمین سونگھ کر اس نے آسمان کی طرف تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور اس کی آنکھوں سے گرنے والے قطرے صاف دیکھے جاسکتے تھے۔ پھر وہ بہت ہی خوش ہو کر ناچنے لگا کچھ اس طرح جیسے بہت ہی نا امید ہو کر اسے مطلوبہ چیز مل گئی ہو ۔ اس کے چہرے پر اگر بہت زیادہ اگی ہوئی داڑھی نہیں ہوتی تو امید کے آثار صاف دیکھے جاسکتے۔

مجمع میں کسی کو بے حد غصہ آگیا۔۔

” پاگل کہیں کے ۔۔جا اپنی راہ لے۔۔” لیکن اس پر ان جملوں کا کوئی بھی اثر نہیں ہوا۔۔

” یہ اس طرح نہیں جائیگا۔۔۔۔۔۔” بھڑکیلی لباس والی ایک نوجوان لڑکی کو کوئی شرارت سوجھی اور جونہی وہ اسکا بازو پکڑ کر اسے ایک طرف ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تو مجمع کو لگا جیسے وہ بت بن گئی ہو۔۔۔ دفتاؑؑ اس کی پتلیوں میں گردش ہوئی اور وہ للچائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی اور پھر اچانک اسے بغل گیر ھو گئی۔ شاید اس کے بازوُں کی مچھلیوں کو محسوس کر کے اسے ایسی حرکت سر زد ہوگئی۔۔۔۔ اور تماشائی یہ دیکھ کر حیران رہ گۓ کہ وہ اجنبی جیسے سمٹا جا رہا ہو۔۔

” یہ پاگل ہے۔۔۔ اس طرح نہیں جایئگا۔۔۔۔ اسے پیسہ دیدو۔۔”

اس آواز کے ساتھ ہی سکے پھینکنے کی آوازیں سنائی دیں۔ مجمع کو لگا کہ سکوں کی جھنکار سے وہ شخص جیسے مجروح ہو رہا ہو۔۔کیونکہ کسی مجنون کے سے ہی انداز میں وہ اس طرح ہاتھ اٹھا رہا تھا جیسے سکے نہ ہوں پتھر ہوں اور ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ رہا ہو۔

دفتاّؓؔ وہ نیچے جھک گیا اور زمین کو سونگھنے لگا۔۔ پھ کچھ دیر بعد رونے کی لمبی آواز اس کے ہونٹوں سے خارج ہوگئی۔ مجمعے پر ہیبت طاری ہوگئ اور پھر وہ چیخا چلایا

” لوگو! یہاں سے خوشبو آنی بند ہوگئی۔ تم نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔۔یہاں اس جگہ۔۔۔” اس نے مخصوص حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تنبیہ کی۔۔” اب خون اگلے گا ۔” اور وہ “دھب” سے زمین پر گر گیا۔۔

*******************

(ریاض معصوم قریشی

زکورہ سری نگر کشمیر )