کسوٹی جدید کے چھٹے ادبی اجلاس کی روداد

میر انیس کی فصاحت مسلمہ ہے اور انھیں شعر گوئی میں اپنے مرتبہ و مقام کا بخوبی شعور تھا۔انھوں خود فرمایا ہے کہ گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں۔اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔یہ تعلی انیس کے لئے زیبا ہے۔ یہ باتیں مسکان سید ریاض ،ایڈیٹر کسوٹی ایونٹس نے “بازدید میر انیس “کے موضوع پر توسیعی لکچروں کے سلسلے کے دوسرے لکچر میں کہیں۔اس لکچر میں میر انیس کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی گئی۔

انتخاب مطالعہ کے تحت موسی ملیح آبادی اور کنور سلیم احمد نے جوش،عبیداللہ علیم اور اطہر نفیس کا کلام پیش کیا۔ اجلاس کے اگلے حصہ میں ظہیر حسنین نے اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کی۔ جہاں شرکاء نے پوری دلچسپی کے ساتھ معائب و محاسن پر گفتگو کی وہیں ظہیر حسنین نے پوری دل جمعی کے ساتھ تنقید سنی۔ھاضرین کا مجموعی تبصرہ یہ رہا کہ ظہیر حسنین عہد نو کے مشاہدات کو کلاسیکی ڈکشن کے ذریعہ بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔جہاں نئی نسل روایت سے بے گانہ محض ہو کر رہ گئی ہے وہاں اس طرح کی شاعری کی قدر دانی ہونی چاہئے۔

سینئر افسانہ نگار ڈاکٹر اصغر کمال نے اپنا علامتی افسانہ ” صاحب نصیب ” پیش کرکے شرکاے اجلاس سے خوب داد و تحسین حاصل کی۔

بچے ہوئے وقت میں کچھ شعر خوانی ہوئی۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔

موسی ملیح آبادی: غزل کے شعر کہتا ہوں شگفتہ لفظ لکھتا ہوں—مگر لہجے سے کیوں میرے یہ چنگاری نہیں جاتی

مسعود نقوی: نفرتیں جب جب بڑحیں گی دیکھنا—بستیاں تب تب جلیں گی دیکھنا

اعجاز شاہین: خاک ہونے دے بے نشاں کردے –میری ہستی کو جاوداں کردے

فرید انور صدیقی:دشت امکان میں افتاں خیزاں—-ہے غنیمت ، تو رواں،ہے کہ نہیں؟

ریاض احمد راجہ: یہ بات سچ ہے کہ مرنا تو سب کو ہے لیکن—جوان موت پہ سب کو ملال ہوتا ہے۔

نصر نعیم: ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو حاصل کیا ہے—آو اک نہر پہاڑوں سے نکالی جائے

ظہیر حسنین: شعلہ فشانیاں بہت یوں تو ترے سخن میں ہیں—اہل جنوں کی بزم میں کیوں ہوگیا بیان سرد

مسکان سید ریاض نے اپنی نظم” زمین کا نوحہ “پیش کی۔

افضل خاں مدیر سہ ماہی کسوٹی جدید کے شکریہ پر اجلاس تمام ہوا۔