!کسوٹی جدید کا 22 واں ادبی اجلاس

میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھاتھا

دور تک یاد وطن آئ تھی سمجھانے کو

اکبر الہ آبادی کے استاد وحید الہ ابادی کے اس شعر کو کسوٹی جدید کے 22ویں ادبی اجلاس کا مرکزی موضوع بنایا گیا تھا۔ چار مضمون نگاروں نے اس موضوع پر اپنے ذاتی احساسات و تجربات پر مبنی مضامین لکھ تھے۔ مضامین جن میں پہلی بار وطن چھوڑنے کا کرب تھا، نئ آسائشوں کے خواب تھے، نئے ماحول کے تعلق سے الجھنیں تھیں۔ امیدیں تھیں خدشات تھے ۔ دلچسپ تجربات اور حیران کن مشاہدات تھے ۔ گدگدی تھی ،کسک تھی ۔ ایسی باتیں تھی جن پر بے اختیار ہنسی اجائے اور ایسی بھی کہ جن کو سن کر آنکھیں اشک بار ہو جائیں۔ اردو ادب کی استاذ اور افسانہ نگار صائمہ نقوی، ماہر تعلیم اور ہندی،اردو گجراتی کی شاعرہ میگی اسنانی، تھیئٹر کے معروف فنکار منہاج خان، اور دوبئ کے ممتاز شاعر نصر نعیم نے اس موضوع پر اپنے مضامین سنا کر ایک کیفیت طاری کردی ۔ امارات کی معروف ادب پرور شخصیت عماد الملک نے ان چار مضامین پر تبصرہ کیا۔

” نقد و نظر ” کے لئے اس ماہ دبئ میں مقیم دھیمے لہجے کی شاعرہ اور شاعری کے تین مجموعوں کی خالق کنول ملک نے اپنی غزل پیش کی۔ شرکائے اجلاس نے اس پر سیر حاصل بحث کی۔ اور غزل کے معنوی،فکری اور ہئیتی اوصاف کا تجزیہ کیا۔ شرکاء کی مجموعی رائے یہ رہی کہ کنول ملک کا کلام بڑی حد تک فنی خامیوں سے پاک ہے۔ روایت سے ۔مربوط اور جدید شعری رجحانات سے متصف ہے۔ڈکشن وسیع ہے۔ مگر شاعرہ کو اپنے موضوعات کے لئے نئے آفاق کی دریافت بھی کرنی چاہئے۔ذات کے زندان سے باہر نکل کر حیات و کائنات کے مسائل کو بھی قالب شعر میں ڈھالنا چاہئے۔

شعر خوانی کے حصہ میں ترنم احمد نور، مسکان سید ریاض،ہرتیک رمز،سرفراز سحر، تقدیس نقوی نے اہنے اشعار پڑھے۔

شارجہ میں منعقدہ اس اجلاس میں ,منور احمد، ترنم احمد ، میگی اسنانی، سیدہ نسباح آغا، سلیم احمد ، ماریہ آفتاب، فرزانہ منصور، خالد عرفان، سرفراز دیرکی، وسیم نقوی، منہاج خاں، ڈاکٹر اصغر کمال، نصر نعیم، اعجاز شاہین، نیر سروش، سید محمد ارشد، سرفرازسحر،کنول ملک،افضل خاں،پرتیک رمز نے شرکت کی۔

اجلاس کی ترتیب و انتظام کی زمہ داری نیر سروش نے بہ حسن و خوبی انجام دی ۔ نیر سروش نے اختتام پر شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ آیندہ ادبی اجلاس 11 جون کو متوقع ہے و نیز اس کی ترتیب کے لئے تجاویز اور مشوروں کا خیر مقدم کیا جائے گا۔