!!!پھر ہجرتوں کے باب میں احکام سے ہیں کچھ

پھر ہجرتوں کے باب میں احکام سے ہیں کچھ

اے عشق عمر میں ہم ابھی خام سے ہیں کچھ

اے ہجر عمر تیری خدا اور کرے دراز

اس حال میں بھی بے کساں آرام سے ہیں کچھ

رہتے ہیں دُھت نشے میں چڑھاۓ بغیر ہم !

آنکھیں کسی کی مۓ کدوں کے جام سے ہیں کچھ

ایسا نہیں کہ شہر کا ہے شہر بدّ ماغ

راون اگر ہیں ، باقی ابھی رام سے ہیں کچھ

حیرت سے دیکھتے ہیں ستارے کیوں آج کل؟

شاید یہ دن پلٹنے کے پیغام سے ہیں کچھ

جنتّ کی حوُر ٗ کوثر و تسنیم کی عطا

مومن کو ایسے سینکڑوں انعام سے ہیں کچھ

مانا کہ تم کو آگے نکلنے کی بھوک ہے

اونچاٸیوں کے مہنگے مگر دام سے ہیں کچھ


جو دل سے مانگو کسی کو ٗ خدا ملا دے گا

تو کیا یہ عشق مجھے بندگی سکھا دے گا؟

فقیر ہم کسی گمنام سی گلی ۔۔۔۔۔۔کے ہیں

کوٸی بھی نام مگر ۔۔۔۔۔ شہر میں بتا دےگا

وہ کہہ گیا ہے جداٸی کا رنج مت کرنا !!!

یہ غم فراق کی ہمتّ بہت بڑھا دے گا

چھپاۓ رکھتا ہوں زخموں کو خانہ۶ دل میں

کہ اُن کو بھی یہ زمانہ نظر لگا دے گا

سمجھ رہا ہے کوٸی کاغذی پرندہ ہوں !!!

ہوا کا ہلکا سا جھونکا مجھے اُڑا دے گا

فیض الامین فیض

موبائل نمبر: 8972769994