نرم پہاڑ

عنوان : نرم پہاڑ
مصنف : عمار نعیمی ، لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو وہ پہاڑ وہاں پہلے سے ہی موجود تھےلیکن رفتہ رفتہ ان دونوں پہاڑوں کے مابین فاصلہ کم ہوگیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے نزدیک آگئے تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دونوں حجم میں بھی بڑھ گئے تھے۔ میں چھوٹا تھا ، جب سے ان پہاڑوں کو دیکھ رہا ہوں ۔ اب میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑا ہو گیا ہوں۔ جب سے میں بالغ ہوا ہوں، مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ مطلب یہ کہ جیسے پہلے میں ان پہاڑوں کو دیکھا کرتا تھا ، اب میں ویسے نہیں دیکھتا ۔ اب میرے دیکھنے میں بھی بدلاؤ آگیا ہے ۔
میں ان پہاڑوں میں اب جمالیات تلاش کرتا ہوں ۔ میں جب بھی تنہا ہوتا ہوں ؛ ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے محض دو پہاڑ ہی نظر نہیں آتے بلکہ اب مجھے ان پہاڑوں کی دلنشین چوٹیاں بھی نظر آتی ہیں ۔ میں ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ آخر اس سے پہلے یہ جمالیات کیوں ندارد تھیں۔ یا میری نظر میں وہ کمال نہیں تھا۔ اب تو مجھے ان چوٹیوں پر جمی برف بھی نظر آتی ہے اور گرمیوں میں تیز دھوپ میں وہ برف بگھلتی ہوئی بھی نظر آتی ہے ۔
وہ پہاڑ بے حد خوب صورت ہیں ۔ نیچے سے مکمل گولائی میں ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا خالق نے کسی پُرکار سے ان پہاڑوں کو گولائی عطا کی ہے۔ اوپر کی جانب بڑھتے جائیں تو گولائی کا دائرہ کم ہوتا جاتا ہے ۔ مجھے ایک طویل عرصہ ہوگیا ہے ، جب سے میں انھیں دیکھ رہا ہوں ۔ میں تو ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھی شاہد ہوں ۔ میں جب بھی انھیں دیکھتا ہوں ؛ میرے دل میں ایک ہی تمنا پنپتی ہے کہ کاش ! میں ان پہاڑوں کو سَر کرسکوں۔ کاش میں اس کی چوٹیوں پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھ سکوں ۔ میری یہ خواہش میری پختہ عمر کے ساتھ ساتھ راسخ ہوگئی ہے ۔ میں جب کبھی ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے منھ میں پانی بھر آتا ہے اور بالآخر ایک سرد آہ پہ حسرت تمام ہوتی ہے ۔
میں خوابوں اور خیالوں میں ہی اسے سر کرتا رہتا ہوں ۔ اس سلسلے میں میری کافی توانائی بھی ضائع ہوجاتی ہے ۔ آخر اتنے بڑے پہاڑوں کو سر کرنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔ میری حسرتوں کا اب تو یہ عالم ہے کہ وہ پہاڑ میرے دل و دماغ پہ طاری ہوچکے ہیں ۔ میں آئینے میں اپنے عکس کے بجائے ایک کوہ پیما دیکھتا ہوں ۔ جو ہر دم ان پہاڑوں کو سر کرنے کو تیار ہے ۔ مجھے فقط یہ ڈر ہے کہ کہیں میں جنون میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ اگر ایسا ہے ؛ تو میں اپنے روشن مستقل سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ وقت گزرتا جا رہا ہے ۔ میں خیالوں میں پہاڑوں کو سر کرتا ہوا کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہوں ۔ لیکن حقیقت میں انھیں سر کرنا ایک خواب ہی رہ گیا ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آخر کیسے عالی حوصلہ حاصل کروں ۔ ابھی یکا یک ایک خیال نے دماغ کے دروازے پہ دستک دی ہے ۔ مجھے وہ خیال بہت بھایاہے اور میں خوشی کے مارے جھومنے لگا ہوں ۔ اب وہ وقت آنے والا ہے کہ میری جیت کے جھنڈے ان پہاڑوں پہ لہرا رہے ہوں گے ۔
اس کے بعد میں مارکیٹ گیا ۔ ایک نامور کمپنی کی خوشبو خریدی۔ پرفیوم خریدنے کے بعد جب گھر پہنچا تو میرے صبر کی انتہا ہو چکی تھی۔ مجھے صرف رات کی تاریکی کا انتظار تھا۔ کیونکہ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں رات کے وقت ان پہاڑوں کو سر کروں گا۔ میں مسلسل ٹہلتا رہا ، کبھی ادھر تو کبھی ادھر ، کبھی آئینہ دیکھتا تو کبھی پرفیوم پر نظریں جماتا ۔ ان سب سے فرصت ملتی تو پرفیوم کی رسید دیکھنے لگتا۔ بڑی مشکل سے میں نے وہ وقت کاٹا ۔ اب رات نے اپنے پر پھیلا دیے تھے۔ میں کافی سہما ہوا تھا۔ لیکن دل میں ایک ہی بات بار بار آرہی تھی کہ اوکھلی میں سرد یا تو دھمکوں سے کیا ڈرنا۔
میں نے اپنے بدن کو معطر کیا۔ اور اپنی منزل کو روانہ ہوا۔ انتہائی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا کہ مجھے کوئی دیکھ ہی نہ لے۔ بالآخر میں اپنی منزل کے قریب پہنچ گیا۔ اب میرے اور ان کے مابین کوئی دیوار حائل نہیں تھی۔ میں ڈرا ڈرا ، سہما سہما آگے بڑھا ۔ میری آنکھیں اتنے بڑے پہاڑ دیکھ کر ، باوجود نیم تاریکی کے چندھیا گئیں۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اس ایک پہاڑ کی گولائی کا جائزہ لیا۔ یکا یک میرے بدن میں بجلی سی دوڑ گئی۔ میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور دل تیز تیز دھرکنے لگا۔
جنھیں بچپن سے اب تک میں فقط دور ہی سے دیکھا کرتا تھا ، آج میں ان پہاڑوں کا لمس محسوس کر رہا تھا۔ میں نے اپنے دوسرے ہاتھ کو بھی متحرک کیا۔ دوسرے پہاڑ پر بھی آرام سے ہاتھ پھیڑا ۔ مجھے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا بلکہ مجھے تو یہ سب ایک سپنا لگ رہا تھا۔ میں نے خود کو یقین دلانے کے لیے ان پہاڑوں کو دانتوں سے کاٹنا چاہا لیکن چوں کہ میں ان پہاڑوں سے پیار کرتا تھا ؛ اس لیے کاٹ کر انھیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ لیکن میں خود کو یقین بھی دلانا چاہتا تھا کہ آج یہ سب کچھ حقیقیت ہے۔ پہلے خوابوں خیالوں میں روز ایسا ہوتا رہا ہے ۔ میں نے دانتوں سے آہستہ سے ایک پہاڑ کو کاٹا ، بجائے یکہ مجھے یقین آتا ، میں حواس ہی کھو بیٹھا۔ اور کاٹنے سے اس پہاڑ پر ہلکی سی خراش آگئی تھی۔ میں بہت ڈر گیا اور اس خراش پر نرمی سے ہاتھ پھیرنا شروع کردیا کہ شاید وہ غائب ہوجائے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
میں وہاں سے اب نکل جانا چاہتا تھا کہ ایک دم ایک خیال دماغ میں آیا :
” جس کے لیے تو نے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی، آج وہ تجھے حاصل ہے اور تو بھاگ رہا ہے؟ بیوقوف مت بن اور چوٹیوں کو سر کر “
لیکن میں بے حد ڈر چکا تھا۔ میں نے وہاں سے نکلنا ہی غنیمت جانا ۔ اس واقعے سے کچھ دنوں بعد تک مجھے خود پہ بے حد غصہ آتا رہا ۔ جی چاہا کہ خود کو مار لوں لیکن میں چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکا۔ درحقیقت میری موت تو اس دن واقع ہوئی جس دن مجھے علم ہوا کہ ان پہاڑوں کے مالک نے انھیں کسی رئیس کے یہاں فروخت کر دیا ہے۔ اب میری امیدیں مفلوج ہوگئیں ۔ کیونکہ اب میں خیالوں میں بھی اسے سر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ صرف یہی سوچتا رہتا کہ اس رئیس نے ان پہاڑوں کی نزاکت کو ملیا میٹ کر دیا ہوگا۔