!!!محور سے بس زمیں کو ہٹانے کی دیر ہے

BY- Fareed A. Siddiqi

محور سے بس زمیں کو ہٹانے کی دیر ہے

وحشت زدوں کے طیش میں آنے کی دیر ہے

بے کار پھر رہی ہیں خلاؤں میں وسعتیں

تیرے مدارِ جذب میں لانے کی دیر ہے

گویا رہینِ امرِ نفس ہے ہَماہَمی

یعنی کہ جس کے دیر سے آنے کی دیر ہے

خوابوں کے مقبروں میں ہیں راحت پذیر سب

کیا سانس کو پکار بنانے کی دیر ہے؟

کھینچیں گے اپنی سمت، گلے سے لگائیں گے

رخ سے ذرا غبار ہٹانے کی دیر ہے

ہم چل رہے ہیں نیند میں ، منزل بھی خواب ہے

ٹھوکر بس ایک راہ میں کھانے کی دیر ہے