!!!محور سے بس زمیں کو ہٹانے کی دیر ہے
محور سے بس زمیں کو ہٹانے کی دیر ہے
وحشت زدوں کے طیش میں آنے کی دیر ہے
بے کار پھر رہی ہیں خلاؤں میں وسعتیں
تیرے مدارِ جذب میں لانے کی دیر ہے
گویا رہینِ امرِ نفس ہے ہَماہَمی
یعنی کہ جس کے دیر سے آنے کی دیر ہے
خوابوں کے مقبروں میں ہیں راحت پذیر سب
کیا سانس کو پکار بنانے کی دیر ہے؟
کھینچیں گے اپنی سمت، گلے سے لگائیں گے
رخ سے ذرا غبار ہٹانے کی دیر ہے
ہم چل رہے ہیں نیند میں ، منزل بھی خواب ہے
ٹھوکر بس ایک راہ میں کھانے کی دیر ہے