!!فیاض الرحمن قادری کی ترجمہ شدہ نظمیں

Poem: Absence

Poet. : Pablo Neruda

نظم : میرے بغیر

مترجم : فیاض الرحمن قادری

جب کہ تم موجود ہو مجھ میں

تو یہ خیال کہ میں چھوڑ چکا ہوں تم کو

مشکل ہے اس بات پہ یقین کرنا

یہ بے چینی، ہونٹوں کی لرزش،

کپکپاہٹ یا جذبات کے مجروح

ہونے کا احساس

سب محبت کی دلیل ہیں میری جاں

یہ وہ تحائف ہیں

جو میری بے پناہ محبت نے تمہیں

عطا کی ہے

اور اس عمل پرجوش نے

تمہیں اپنے حصار محبت میں لے رکھا ہے

آہ، میری محبت

جب تمہاری انکھیں بند ہوں

تو تصور میں موجود

میری محبت کی مضبوط گرفت

تمہیں احساس دلاتی ہوگی

کہ میرے وجود نے

بخشی ہے محبت کی زندگی

تم کو

اے میری جان حیات

جب ہم ملے تھے

تو تشنہ لب تھے

پھر ہم نے محبت کے جام پیے

اور ہماری تشنہ لبی تبدیل ہوئ

اشتہا محبت میں

انجام کار نشاں چھوڑ گئ

ہمارے وجود پہ

جیسے شعلوں کی طپش

جسموں کو جھلسا دیتی ہے

وہ طپش اب بھی موجزن

ہے ہمارے وجود کے اندر

میرے لوٹنے کا انتظار کرو

کہ میں تمہیں نزر کروں

محبت کا ایک گلاب۔۔۔۔۔

—— 2 ——–

Poem: Not an interval

Poet :. Shimbo Shon

ٹھکانہ ۔۔ برزخ سے پرے

ترجمہ: فیاض الرحمن قادری

چلو، عشق ذات سے ہٹ کر

کچھ دیر کے لیے سوچتے ہیں

کہ اپنے لیے

کسی نئ منزل کا تعین کرلیں

ڈھونڈ نا ہے ایک رہ گزر

کہ جس پہ گامزن ہوکر

ایک نئ دنیا تخلیق کرتے ہیں

جہاں ارواح کا اجتماع ہوگا

ہوا کے دوش پر

ہوا کہ اب بھی غیر منقسم ہے

انسانی دسترس سے دور

سرحدوں کے تعین کے بغیر

ہر سمت حرکت کی آزادی ہوگی

زمین کہ مسکن ہے

بہت سے خون آشام سفاکوں کا

جو خود کو انسان کہتے ہیں

سمجھتے ہیں

پر رنگ و نسل کی بنیاد پر

تقسیم ہے جن میں

زمیں کو بیچ ڈالا ہے

روند ڈالا ہے

زمینی ناخدا۔ًوں نے

اب یہاں رہنا یا رکنا

کار عبث ہے شاید

پر یاد رہے

مسکن ارواح میں

رہنے کے لیے

گندگی کے بوجھ کو

جسے جسم کہتے ہیں

زمیں پہ چھوڑنا ہوگا

—— 3 ——–

Poem: Life and dead body on the beach

By : Shimbo Shon

زندگی اور ساحل پہ پڑی لاش

مترجم: فیاض الرحمن قادری

ساحل پہ پڑی لاش کو

جو دیکھا تو یہ احساس ہوا

کہ یہ ظلم ہے سمندر کا

عالم طیش میں

وہ سوالی ہوا سمندر سے

‘وہ جو مر جاتے ہیں

انہیں ساحل پہ کیوں

پھینک دیتے ہو’

لہروں کے دوش پہ

گہرے سمندر سے

ابھری ایک آواز

‘جو ہمارے مد و جزر

کو سہہ نہ سکیں

اور ہمت ہار جاتے ہیں

ہم انہیں ساحل پہ پھینک دیتے ہیں

جہاں زمین اپنی آغوش میں لے کر

نہ ہونے والی صبح تک

تا قیامت

اپنے امان میں رکھتی ہے

کہ یہی انجام ہارے ہوئے

انسان کا ہے’

——- 4 —–

Justice

By: Mehta Hasmukh Amathaal

مترجم: فیاض الرحمن قادری

انصاف میں تاخیر، انصاف سے محرومی ہے

پر ایوان عدل میں یہ مثالیں عام ہیں

اب انصاف بس تاخیر ہی نہیں

بلکہ انصاف سے انکار بھی ہے

یہ معاملہ روح کو زخمی کرتا ہے

پر جب ضمیر مردہ ہو تو

لگتا ہے

یہ روز کا معمول ہے

سسٹم میں خامیاں موجود ہیں

اور تنقید کی زد میں بھی ہیں

انصاف کی فروخت ایک معمول ہے یاں

اگر آ پ طاقتور ہیں یا مالدار

اپنے مطلب کا فیصلہ لکھوالیں یہاں

فیصلے کا متن حسب منشا

اور مہر صداقت براے فروخت منصف کا

حرام خور سیاستدان اور ان کے پیرو کار

نظام عدل پہ حاوی ہیں

بد عنوانی اور رشوت ستانی سے

کمائ گئ دولت عدالت میں

اڑائ جاتی ہے

اور معصوم سائل کے لیے

ایستاده ہیں ستون دار

پر کبھی کبھار امید کی کرن بھی

نظر اتی ہے جب

فیصلے حق پہ ہوتے ہیں

اسلاف کی حصول آزادی کی جد و جہد

ایک ایسی سرزمین کے لیے تھی کہ جہاں

عدل و انصاف کا بول بالا ہو نا تھا

ہمیں امید ہے اب بھی

قربانیاں ان کی رائیگاں تو نہیں ہوں گی۔۔۔۔

(جناب مہتا ہسمکھ اماتھال کی نظم Justice سے اقتباس)

All reactions: