سہ ماہی کسوٹی جدید کا ساتواں ماہانہ ادبی اجلاس

سہ ماہی کسوٹی جدید کی جانب سے ماہانہ ادبی اجلاسوں کے سلسلہ کا ساتواں ادبی اجلاس ۶ / اگست کو منعقد ہوا۔ سید اعجاز شاہین کے افتتاحی کلمات سے اجلاس کا آغاز ہوا۔

افضل خاں نے چار افسانچہ بعنوان آدمی اور بندر،زہر کی جڑیں،بیمار اور نقش پا پیش کئے۔ اور تمہید میں داستاں سے افسانچہ تک اردو کہانی کے سفر کا اجمالی تذکرہ کیا۔

بعد ازاں مسکان سید ریاض نے ” بازدید میر انیس “کے عنوان پر جاری لکچروں کے سلسلے کا تیسرا ور آخری لکچر دیا اور اس بار موضوع تھا انیس اور دبیر کا موازنہ۔ شبلی اور دیگر نقادوں کے آراء کی روشنی میں انیس اور دبیر کی شخصیت اور فن پرسیر حاصل گفتگو کی۔لکچر کے بعد ،جو پہلو تشنہ رہ گئے تھے ان پر محترمہ ثروت زہرہ زیدی نے محققانہ روشنی ڈالی ۔اس کے بعد نیر سروش نے اپنے مطالعہ سے ایک انتخاب پیش کیا ،جس کا موضوع تھا” اہل اردو کی اردو رسم الخط سے غفلت اور اس کے عواقب”۔

نصر نعیم نے اپنی غزل تنقید کے لئے حاضرین اجلاس کے سامنے پیش کی۔جس پر حاضرین نے کھل کر گفتگو کی اور ہر شعر کے محاسن و معائب پر تبصرہ کیا۔حاضرین کی مجموعی راِے یہ رہی کہ حالیہ عرصہ میں نصر نعیم کی شاعری میں خاصا نکھار پیدا ہوا ہے۔بیانیہ پن میں کمی اور گہرائی فکر میں اضافہ ہوا ہے۔آخر میں مختصر سی شعر خوانی ہوئی ۔شعرا کے کلام سے چند اشعار پیش ہیں۔ ارشد احمد،عماد الملک،اسد اللہ خاں، منور احمد نے پہلی بار ہمارے ادبی اجلاس میں شرکت کی اور نہات مفید مشوروں سے نوازا۔

فرید انور صدیقی:

عجب تھی بیخودی طاری،تھا بین خواب و بیداری

پھر اس رستے کے پیچ و خم نمی دانم کجا رفتم

سید اعجاز شاہین:

کس کس کے لئے اور کہاں تک میں سمیٹوں

مٹی تو بہر طور بکھرنے کے لئے ہے

ظہیر حسنین:

عکس کا زنگار کے رخ پر سنور جانے کا شوق

ہائے لیکن آئنہ کو ہے بکھر جانے کاشوق

نصر نعیم:

لذتیں بڑھ گئیں اسیری کی

زخم زنجیر پا سے ملنے لگے

فوزان قداوائ:

اگر سوال یہ وشواس کا نہیں ہوتا

تو پتھروں میں کوئ دیوتا نہیں ہوتا

مسکان سید ریاض:

غم کے اندھیرے چھانٹنے چندا بھی آے گا

آنسو سنبھالنے مرے دریا بھی آے گا

ریاض احمد راجہ:

آگے رہا میں، پیچھے، مرا قافلہ رہا

یوں حادثوں کا ساتھ مرے سلسلہ رہا

مسعود نقوی:

اتنا آساں ہے چھوڑنا اس کو

دوسرا عشق پھر جٹانا ہے

ماریہ آفتاب:

یہاں میں نہ ہوتی اگرچہ خدا نے

مجھے امتحاں سے گزارا نہ ہوتا

افضل خاں، مدیر کسوٹی جدید کے شکریہ اور اختر علی خاں کی ضیافت پر محفل اختتام کو پہنچی۔

{رپورٹ: افضل خاں}