!!!راجیش ریڈی کی غزلیں

سخن آساں نہ تھا کرنا مرتب

کیا لفظوں میں سنّاٹا مرتب

بہانا تھا سلیقے سے ہر آنسو

ہمیں کرنا تھا اک دریا مرتب

غموں کی دھوپ ہی کرتی ہے آخر

کسی بھی شخص کا سایا مر تب

امیدوں نے اجاڑا میرے دل کو

سرابوں نے کیا صحرا مرتب

اور اک دن آگیا وقتِ قیامت

میں کرتا رہ گیا دنیا مرتب

2

مچھلیاں دریا سےہیں بیزار سب

جال میں جانے کو ہیں تیار سب

آنکھ میں آنسو ابھی آئے ہی تھے

چل دئےاٹھ کر مرے غم خوار سب

بوجھ سارا دوستوں پر آ پڑا

مر گئے جا کر کہاں اغیار سب

بھول بیٹھا ہر کوئی اپنا مرض

چارہ گر کے ہو گئے بیمار سب

ہونٹ اُس کے خود بخود وا ہو گئے

اور دھرے ہی رہ گئے انکار سب

سایہ دیوار میں بیٹھا ہی تھا

جا چھپے سائے پسِ دیوار سب

3

کسی پر صبح آتا ہے کسی پر شام آتا ہے

ہمارے دل کو لے دے کر یہی اک کام آتا ہے

یہ کس منہ سے کہوں میں مجھ کو میرا کام آتا ہے

سخن میرا تو مجھ تک صورتِ الہام ہوتا ہے

وہی انجام ہوتا ہے ہر اک آغاز کا اپنے

ہمارا ہر قدم ناکامیوں کے کام آتا ہے

سزائیں پھر مقرّر ہو رہی ہیں بے گناہوں کی

یہ دیکھیں اب کے سر پر کون سا الزام آتا ہے

مقدر اپنا-اپنا لے کے آتے ہیں پرندے سب

فلک چھوتا ہے کوئی، کوئی زیرِدام آتا ہے

یہاں ساقی کی ساری ہی توجہ شیخ جی پر ہے

کہاں ہم تشنہ لب رندوں کی جانب جام آتا ہے

راجیش ریڈی