!!حاشر افنان کی غزلیں

مجھ کو اس بات پر بھروسہ ہے

میرے جیسا ہی تو بھی تنہا ہے

کون کہتا ہے عشق اچھا ہے

عشق تو صرف امید پیما ہے

لوٹ کر جا چکا خزانہ کوئی

میرے ہاتھوں میں صرف نقشہ ہے

آو اک ساتھ مجھ کو ختم کرو

یار جس جس کو مجھ سے شکوہ ہے

کاش اس کا سکوں بھی چھن جائے

جس نے میرا سکون چھینا ہے

فکر کس بات کی ہے حاشر جی

جب میسر ہمارا کاندھا ہے

جبکہ افنان خوش ہے تیرے بغیر

کیوں تو حاشر اداس رہتا ہے

—– 2 —-

وقت میرے لئے نکال میاں

کچھ تو میرا بھی کر خیال میاں

جسم سے روح تب نکلتی ہے

کاٹ دیتا ہے جب تو کال میاں

بن مرے ایک پل نہ کٹتا تھا

آج بچھڑے ہوا ہے سال میاں

دو ہی چیزیں تو تم میں اچھی ہیں

سرخ ہونٹ اور کالے بال میاں

اتنے خاموش کس لیے ہوئے ہو

تم بھی کرتے کوئی سوال میاں

یاد اکثر تری ستاتی ہے

اس اذیت کا حل نکال میاں

حاشر افنان ڈھونڈیے تو سہی

مل ہی جاتا ہے ہم خیال میاں

—- 3 —–

سرِ گفتار خصلت بولتی ہے

جبھی میری شرافت بولتی ہے

اداسی غم اذیت ہے یہ دنیا

تو اس کو خوبصورت بولتی ہے؟

تبھی ہے لطف اس کی شاعری میں

فصاحت اور بلاغت بولتی ہے

کرے گا قوم کو برباد اک دن

یہی تو اکثریت بولتی ہے

وہ جب جب جھوٹ کہہ دیتی ہے یارو

وہ تب تب خوبصورت بولتی ہے

کسی کا دوغلہ پن بولتا ہے

کسی کی شان و شوکت بولتی ہے

کروں افنان اس پر جان قربان

سخن میں جو لطافت بولتی ہے

——– 4 —–

چلو اک بار پھر کالی گھٹا دیکھیں

نئے محبوب کی زلف رسا دیکھیں

جب اپنے پاس ہیں رستے بہت سارے

تمہارا ہی میاں کیوں راستہ دیکھیں؟

جنہیں اس زندگانی کو سمجھنا ہو

میں کہتا ہوں وہ جل کا بلبلا دیکھیں

سخن فہمی میں جس کا دیکھنا ہو فن

غزل میں اس کا برتا قافیہ دیکھیں

اگر سچی محبت دیکھنی ہو تو

شجر کا اک جگہ ٹکنا زرا دیکھیں

عداوت کا جسے بھی شوق ہے مجھ سے

وہ میرے دوستوں کا دائرہ دیکھیں

کسی کے عشق کو جب آزمانا ہو

میاں افنان اس کا حوصلہ دیکھیں