!!جاوید نہال حشمی کے افسانچے

فوکل لینتھ (افسانچہ)

”سنجیونی بُوٹی کی شناخت نہ کر سکنے کے سبب پہاڑ سمیت پوری وادی ہی اٹھا لائے ہتھیلی پر… کیا تم سچ مچ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہو؟” ریاض کے لہجے میں دبا سا طنز تھا۔

”بات تو رئیلی اِل لاجیکل ہے۔” راہل نے اتفاق کیا۔پھر ریاض کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

”آج کل بڑے فیشن ایبل ہو رہے ہو۔نیا چشمہ؟“

”نہیں یار، شیشہ تو پرانا ہے، بس یہ فریم پسند آ گیا تھا۔“

”واقعی جچ رہے ہو اس میں۔ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ۔“

راہل، ریاض کا چشمہ اپنی آنکھوں پر چڑھا کر موبائل سے سیلفی لینے لگا۔

”ابابیلوں نے اپنی چونچ میں پتھر لیے شتروؤں پر گرانا شروع کر دیا اور وہ سب بری طرح پراجِت ہو گئے …کیا یہ سمبھَو ہے؟“راہل نے مختلف زاویوں سے سیلفیاں لیتے ہوئے ہنس کر کہا۔

ریاض کے چہرے کے خطوط یکلخت تبدیل ہو گئے۔

”اور تو اور، انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے بھی کر دئیے۔“سیلفی میں مگن، اس کے لہجے میں تمسخر ہنوز واضح تھا۔

ریاض کی آنکھیں انگارے اگلنے لگیں۔ اس نے جھپٹ کر اس کی آنکھوں سے اپنا چشمہ کھینچ لیا۔

”اگرتم میرے دوست نہ ہوتے تو تمہاری زبان کاٹ لیتا۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے ایمان کو للکارنے کی؟“

”لل … لیکن میں نے ایسا کچھ کب کہا؟“

راہل کے تحیّر میں بناوٹ یا جھوٹ کا شائبہ تک نہ تھا !

2

چیلنج

جاوید نہال حشمی

مہینے بھر کی شاپنگ کا بھاری بھرکم تھیلا نیچے رکھتے ہوئے ابّو نے جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور بچوں کو دیتے ہوئے کہا:

”لو، یہ تم سب آپس میں بانٹ لو۔“

بیگم کے استفسار پر انہوں نے کہا: ” پانچ ہزار روپے یا اس سے زیادہ کی شاپنگ پر عادل جنرل اسٹور میں گفٹ آئٹم کا آفر تھا جسے نہ لینے پر پانچ سو روپے کا ڈسکاؤنٹ … اب فری گفٹ کی رقم پر بچوں کا ہی تو حق بنتا ہے۔“

ثمینہ نے جھپٹ کر نوٹ لے لیا اور چاروں بچے اچھلتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر قبل چاروں نے چپکے چوری اپنے اپنے جیب خرچ سے سو سو روپے ملا کر کل فادرس ڈے کے دن ابّو کو گفٹ دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ چھوٹے حامد کے پاس صرف پچاس روپے ہی بچے تھے اور ثمینہ نے اس شرط پر پچاس روپے زائد لگائے تھے کہ اگلے ماہ کے اپنے جیب خرچ سے حامد پچاس روپے آپی کو لوٹا دے گا۔

ثمینہ نے سب کے پیسے لوٹائے اور چاروں نے یہ پانچ سو روپے آپس میں نہ بانٹ کر گفٹ خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔

دوسرے دن شام جب وہ گفٹ خرید کر دکان سے نکلے تو سامنے کے عادل جنرل اسٹور سے عادل انکل نے انہیں آواز دی۔

”کل تمہارے پاپا مہینے بھر کا سامان لے گئے تھے۔ مگر یہ بِل یہیں چھوٹ گیا۔ “ انہوں نے بِل تھماتے ہوئے کہا۔

”مگریہاں تو پانچ ہزار کی رقم لکھی ہوئی ہے۔ ڈسکاؤنٹ آفر پانچ سو روپے مائنس نہیں کیا؟“ ثمینہ نے بِل کی رقم دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”کیسا ڈسکاؤنٹ؟ کیسا آفر؟“ انہوں نے تعجب سے پوچھا۔ لیکن ثمینہ کوئی جواب دئیے بغیر خاموشی سے سب کے ساتھ باہر نکل آئی۔

شام کو گفٹ قبول کرتے وقت ابّو نے آئندہ سے فضول خرچی نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے چاروں بچوں کو گلے سے لگا لیا۔ثمینہ ابّو کی نم آنکھوں میں چیلنج پڑھ رہی تھی:

میں بھی تمہارا باپ ہوں