تسطیر — خدشات، توقعات اور خواہشات کا ادبی تناظر

📙

✍🏻 نصیر احمد ناصر Naseer Ahmed Nasir

ایک دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے 1997ء کے آغاز میں جب تسطیر کا اجرا ہوا تو اس کا اولین مقصد ادبی گروہ بندیوں اور اُردو شعر و ادب پہ طاری جمود اور یکسانیت کو توڑنا اور اسے معاصر ادب کا ایک رجحان ساز جریدہ بنانا تھا۔ ایک ایسا جریدہ جس میں ادب کی روحِ عصر ہو، پرانے، معاصر اور نئے لکھنے والوں کا متوازن امتزاج ہو اور جس کا مزاج علاقائی نہیں عالمی ہو۔ تسطیر کی اشاعت نہ تو کسی رسالے کا خلا پُر کرنے کے لیے، نہ کسی رسالے کے تتبع یا مسابقت میں اور نہ کسی ادبی، سماجی اور مالی منفعت کے لیے شروع کی گئی تھی۔ تسطیر کی اپنی ادبی روحانیات، اپنی ادبی حرکیات ہیں جو کسی مخصوص ادبی گروپ، کسی مخصوص ادبی شخصیت، کسی مخصوص نقاد، کسی مخصوص تبصرہ و کالم نگار کی محتاج نہیں۔ بطور مدیر میرے ذہن میں اس کی کامیابی کے حوالے سے کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ میرے تیقن اور پختہ ارادوں کو دیکھتے ہوئے اُس موقع پر بہت سے دوستوں نے بے لاگ آرا اور مشوروں سے نوازا۔ آج جب تقریباً تئیس (23) سال کے زمانی عرصہ کے بعد اُن آرا کو پڑھتا ہوں تو ان میں سے کچھ کی حیثیت تاریخی لگتی ہے۔ اس تحریر کا بنیادی مقصد بھی ان آرا کو ایک ادبی دستاویزی شکل دینا ہے تا کہ ادب کے قارئین اُس وقت کے اور آج کے ادبی تناظرات میں ادبی جرائد کی افادیت اور ادبی صحافت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ اس ضمن میں ابتدائی طور پر عبید اللّٰہ علیم (مرحوم)، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، انوار فطرت اور رفیق سندیلوی کے خطوط پیش ہیں:

✍🏻 عبید اللّٰہ علیم

میرے دھیان میں تھا کہ شاید ایک دو غیر مطبوعہ غزلیں کہیں میری زنبیل میں پڑی ہوئی ہیں مگر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ جناب احمد ہمیش انہیں بھی “تشکیل” میں شائع کر چکے ہیں۔ ایک تو ہمیشہ سے میں کم گو ہوں۔ آپ کو حیرت ہو گی تقریباً چالیس سال کے ہمہ وقتی شعری جذب و کیف میں 20/22 نظمیں، کوئی لگ بھگ سو غزلیں لکھ سکا ہوں۔ اب فرمائیے اوسط کیا ہوئی۔ اگر کوئی سال بہت زرخیز آ گیا تو پھر دو تین سال بنجر بھی پڑا رہا۔ ممکن ہے ابتدائی چند سالوں میں چھپنے چھپانے کا شوق ہو مگر ایسا نہیں کہ بے تقاضا کہیں کچھ بھیج دوں یا کسی ایڈیٹر کی منت گزاری کروں یا اس کے حلقہء خوشامداں میں اس کے لیے تالیاں بجاؤں۔ شاید یہ میری خود اعتمادی ہو یا انا ہو مگر عزت نفس سے بھی زیادہ توقیرِ شعر کا قائل رہا ہوں۔ ریڈیو، ٹیلی وژن کی تو بات ہی چھوڑیے ہمارے ادبی پرچے اور ہمارے مشاعرے بھی ادبی وقار اور معیار کے توازن میں عموماً ناکانم رہے ہیں۔ کہیں 70 تو کہیں 80 فی صد کھوٹے سکوں کے بغیر کام نہیں چلتا۔ ادبی پرچے اور ادبی صفحات ڈھیروں نکل رہے ہیں مگر اس ڈھیر میں ڈھونڈنے سے کبھی کوئی موتی ملتا ہے۔ ادب کسی زمانے میں بھی منوں ٹنوں نہیں لکھا گیا۔ گنتی کے لوگ ہوتے ہیں جن کی روح، روحِ ادب سے جڑی ہوتی ہے۔ باقی وہ ہوتے ہیں جو ہرچند نہیں ہوتے مگر اپنی کثرت کی وجہ سے پُر شور اور پُر زور نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کی روح میں ادب نہیں ہوتا اس لیے یہ اپنے نام اور شہرت کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ خبر نہیں ترقی پسندی کسے کہتے ہیں اور رجعت پسندی کسے کہتے ہیں مگر ان شاعروں، ادیبوں نے حکومتوں کا بے دام (مگر شاید بے دام نہیں) غلام بن کر ادب کے استعارے کو رسوا و خوار کر دیا ہے۔ وفا داری کا عہد وطن سے کرنا چاہیے، وفا داری کا عہد انسان سے کرنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر وفا داری کا عہد اپنے خدا سے کرنا چاہیے نہ کہ وزیروں، سفیروں اور مشیروں سے۔ مشاعرہ ہو کہ کوئی کانفرنس ہو ایسا لگتا ہے کہ اس کی اصل روح کوئی وزیر، کوئی سفیر، کوئی مشیر ہے۔ باقی جو لوگ ہیں اس کے ادب و احترام میں کھڑے ہونے اور ادب کے سلسلے میں اس کے پند و نصائح مؤدب بیٹھ کر سننے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ کتابوں کے افتتاح دیکھیے رسالوں کے افتتاح دیکھیے مشاعرے دیکھیے کوئی نام نہاد ادبی کانفرنس دیکھیے بس وہ دیکھیے جو روحِ ادب ہرگز ہرگز نہیں دیکھنا چاہتی مگر اس لیے دیکھتی ہے کہ کثرت ان کی ہے جن کا روحِ ادب سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ چونکہ ان کا سیلف میڈیم کمزور ہے اس لیے وہ کسی بھی میڈیم کو بے دریغ سجدہ کر سکتے ہیں۔ محترم نصیر احمد ناصر صاحب میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ جریدہ نہ نکالیے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ ہر سہ ماہی میں اتنا ڈھیر ادب آپ کو ملے گا کہاں سے۔ وہ جو ہر ادبی رسالے میں پندرہ بیس فی صد سچ مچ کے لکھنے والے ہیں کیا وہ سب اب آپ کے رسالے میں شائع ہوا کریں گے یا اوریجنل اور جینوئن تخلیقی نام کسی عدم سے وجود میں آئیں گے اور اتے رہیں گے۔ اللہ کرے کہ آپ کا جریدہ واقعی اعلیٰ ادبی و فکری معیار کا نمائندہ ہو۔

(اپریل 1997ء)

✍🏻 ڈاکٹر ستیہ پال آنند Satyapal Anand

آپ کا خط اور میرا خط کراس کر گئے۔ امید ہے کینڈا سے لوٹنے کے بعد لکھا ہوا خط آپ تک پہنچ چکا ہو گا۔ آپ کا خط باتفصیل نہیں، مختصر ہے لیکن خوشی کی ایک خبر لیے ہوئے ہے۔ لاہور سے سہ ماہی رسالے کا اجرا ۔۔۔۔۔ لیکن بھائی جان رسالہ نکالنا دل گردے کا کام ہے۔ اس میں روپیہ نہیں، خرچ ہی خرچ ہے۔ انڈیا کی نسبت پاکستان کے ڈاک اکراجات دگنے ہیں۔ کاغذ بھی انڈیا سے دگنا مہنگا ہے۔ کیسے کر پائیں گے آپ؟ پھر ادبی سیاست، الاماں! آپ جیسا بھلا مانس، جذباتی انسان کہاں برداشت کر پائے گا، ان لوگوں کی سازشیں جو پہلے سے وہاں موجود ہیں؟ نصیر احمد ناصر تو سچا سُچا انسان ہے۔ چھوٹے لوگوں کے ساتھ برتنا کئی بار خود اپنا قد بھی گھٹا دیتا ہے۔ آپ حساس طبع ہیں۔ مشکل ہو گا آپ کے لیے! اس لیے بھائی جان، ایک بار پھر سوچ لیں۔۔۔۔ لیکن آپ کہاں ماننے والے ہیں۔ میں نے خود اپنی زندگی ادبی صحافت سے شروع کی۔ اکیس برس کی عمر میں بلدیو متر بجلی کے ساتھ ماہنامہ “راہی” دہلی کی ادارت کا کام سنبھالا۔ بجلی صاحب تو کنگال ہوئے ہی، مجھ غریب کو بھی کنگال کر گئے۔ بس وہ دن اور آج کا دن، کان پکڑ لیے۔ کہانیاں لکھیں گے، نظمیں لکھیں گے، غزل کہنے کی جھک بھی ماریں گے، لیکن رسالہ نہیں نکالیں گے! اور اگر کوئی دوست یہ خود کشی کرنے کا ارادہ ظاہر کرے گا تو ایک دو بار تو اسے باز رکھنے کی کوشش کریں گے، لیکن اگر اس کے سر میں یہ سودا سما ہی چکا ہو تو دبی زبان سے آخر میں یہی تلقین کریں گے ”جا بچہ، چڑھ جا سولی! رام بَھلی کریں گے۔“ تو نصیر احمد ناصر بھائی جان، رام بھلی کریں گے، آپ چڑھ جائیے خم ٹھونک کر سولی پر۔ یعنی جریدہ شروع کیجیے۔ تخلیقات کے لیے دوستوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیے اور پھر سطحی نگارشات شاملِ اشاعت نہ کرنے پر ان سے مغلظات سنیے۔ اور آخر میں کنگال ہو کر گھر لاٹ جائیے۔ لیکن یہ رائے میں آپ کو کیوں دے رہا ہوں؟ مجھے علم ہے کہ لاہور سے معیاری جریدوں “فنون” اور “اوراق” کے باقاعدگی سے منظرِ عام پر آنے کے باوجود ادبی قحط ہے۔ یعنی Middle Brow رسالے تو نکلتے ہیں، جن میں مداری کی پٹاری کی طرح ہر قسم، ہر قماش اور ہر قبیل کا ساز و سامان بھراہوتا ہے، لیکن ان کا ادبی مقام کیا ہے؟ ماسوائے اس کے کہ (پروف ریڈنگ کی اغلاط کی بھرمار کے باوجود) کبھی کبھار کوئی کام کی چیز بھی مل جاتی ہے ورنی اللہ اللہ خیر صلا! گروپ ازم میں بندھے ہوئے لوگ “من ترا حاجی بگوئم، تو مرا ملا بگو” کے مصداق دوستوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور دشمنوں کی ٹانگ کھینچنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ اس لیے آپ کو یہ رائے دے کر میں آپ کے ساتھ اور اردو کے ساتھ ناانصافی کر رہا ہوں۔ آپ بلند حوصلہ ہیں۔ آپ میں ادب کے تئیں ایک ایماندارانہ اور چھل کپٹ، لاگ لپیٹ کے بغیر خلوص اور مروت کا جذبہ ہے۔ آپ گروپ ازم میں بھی نہیں پھنسے۔ خود تخلیق کار ہیں اور اچھے تخلیق کار ہیں۔ آپ نے اس بات کا بھی ثبوت دیا ہے کہ جو کچھ آپ لکھتے ہیں نظریاتی طور پر، متن اور اسلوب کے نقطہ ء نظر سے اور جدید عالمی شاعری کے تناظر میں آپ خود اپنی نگارشات کو بھی تنقید کے محدب عدسے کے نیچے سے گزار کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنے ہم عصروں کو بھی پہچانتے ہیں۔ خصوصی طور پر شاعروں کی اس جنریشن کو جو کلیشے سے بیزار ہے اور تازہ بہ تازہ، نو بہ نو امیجری کے Ambrosia پر اپنا گزارہ خود کرتی ہے۔ یعنی کلاسیکی غزل کے تتبع میں کہی جا رہی ان ہزاروں غزلوں کے نعمت خانے سے کچھ نہیں چراتی، جس کے بھنڈار بھرے پڑے ہیں۔ اس لیے مجھے آپ کو یہ تلقین نہیں کرنی چاہیے کہ آپ جریدے کا اجراء نہ کریں۔ کیونکہ موجودہ ادبی ماحول میں اس کی سخت ضرورت ہے۔ میں امریکہ میں ہوں۔ اس لیے لاہور اور کراچی سے ایک Aesthetic Distance رکھتا ہوں۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ اپنی بلدیاتی مشکلات کے باوجود کراچی اردو کی ادبی صحافت میں کیسے پیش پیش ہے۔ اس لیے نصیر احمد ناصر بھائی جان، آپ کی ادارت میں اس سہ ماہی جریدے کا اجراء، مجھے یقین ہے، ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ “بلبلِ ہند” سروجنی نائیڈو پر مضمون خط کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خطاب انہیں اقبال نے دیا لیکن اس بات کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔ غیر مطبوعہ نظمیں بھی منسلک ہیں۔

(اپریل 1997ء)

✍🏻 انوار فطرت Envar Fitrat

نصیر، جب کوئی رسالہ رجحان سازی کی غرض سے نکلتا ہے تو اس ٹرینڈ کو پسند کرنے والے اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ رسالہ اپنی ساکھ بنا لیتا ہے۔ اس طرح کچھ دن بڑا مزا رہتا ہے۔ لیکن پھر ہوتا یوں ہے کہ اس ٹرینڈ کے حامل بعض جغادری رسالے کا مزاج بن جاتے ہیں۔ اب نیچر تو یہ ہے کہ سٹیٹس کو کبھی نہیں رہتا۔ سلسلہ تغیر پذیر رہتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس “اس” رسالے کا مزاج بن جانے والے مصنوعی طور پر سارے تحرک کو روکے ہوئے ہوتے ہیں جس سے اندر کی فضا جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا تخلیقی ارتقا رک جاتا ہے۔ چونکہ ان جغادریوں کی رسالے پر اجارہ داری ہو چکتی ہے اس لیے وہ ایسی تحریروں کو چھپنے نہیں دیتے جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مات دیتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح سمے کے ساتھ دھیرے دھیرے یہ رسالہ اپنی افادیت کے اعتبار سے کمزور پڑتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً تم نے اردو کے بعض ایسے رسالے دیکھے ہوں گے جو تم کو آج سے بیس پچیس سال پہلے بہت تحریک اور مزا دیتے ہوں گے، لیکن آج وہی رسالے جو وہی کچھ شائع کر رہے ہیں، تمہیں بوڑھے بوڑھے اور تھکے تھکے دکھائی دیتے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں رسالوں کو ان میں شائع ہونے والی اصناف کا تنوع اور وقت کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کا عمل ہی موقر بناتا ہے۔ تم غزل دیکھ لو۔ “اوراق” اور “فنون” میں چھپنے والی غزلیں ایک انتہائی قلیل استثنٰی کے ساتھ لگتا ہے ایک ہی شخص کی کہی ہوئی ہیں۔ یہ ہی حال نظموں کا بھی ہے۔ “اوراق” نے انشائیہ متعارف کرایا اور اسے اٹھا کر ایک سطح پر لے گیا۔ شروع میں اس صنف نے بہت متاثر کیا۔ کچی پکی تحریروں کے کھٹ میٹھے پن کے ساتھ یہ صنف سامنے آئی اور چلتی رہی۔ لیکن اس کے لکھنے والوں نے اس کی مخصوص تعریفیں اور تاویلیں کر کر کے اسے مفلوج کر دیا۔ یہ سب کہنے کا مقصد تمہیں صرف وارننگ دینا ہے۔ (انگریزی کے اس لفظ میں اردو کے “خبردار” سے زیادہ خبرداریت ہے اس لیے لکھ رہا ہوں۔) تم رسالہ نکال رہے ہو تو اس کے ارتقا میں خود ھائل ہونا اور نہ کسی کو اجارہ دار بننے دینا۔ ویسے میرا مشورہ تو یہ ہے کہ تم اپنی تخلیق کی طرف دھیان دو۔ اس وقت رو میں ہو۔ کوئی کمال کر جاؤ گے۔ رسالے میں مصروف ہو گئے تو بٹ جاؤ گے۔ پھر کمر توڑ قسم کے اخراجات اور آمدنی صفر۔ میں تمہارے مزاج سے آشنا ہوں، تم کیسے کسی کے پاس اشتہار طلب کرنے جاؤ گے۔ یہ باتیں تم کو لکھتے ہوئے مجھے تمہاری ناراضی کا خدشہ نہیں۔ میں جانتا ہوں تمہاری ناراضی کبھی اتنی پائدار نہیں ہوتی جتنی تمہاری دوستی ہے۔ (اپریل 1997ء)

✍🏻 رفیق سندیلوی Rafiq Sandeelvi

خوشی ہوئی کہ آپ ایک سہ ماہی ادبی پرچہ “تسطیر” کے نام سے نکال رہے ہیں۔ جب کوئی شاعر/ ادیب کسی پرچے کا اجرا کرتا ہے تو اس کے عقب میں نفسی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، ذہنی تحفظات بھی اور دیگر امور و معاملات بھی، مگر جب معاملہ کسی جینوئن اور صاحبِ مطالعہ ادیب کا ہو تو بے اختیار چند باتوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ یہ کہ وہ کچرے کی اشاعت پر متفکر ہے اور ادنیٰ تحریروں کو ارفع تحریروں سے نتھی نہیں کرنا چاہتا، یہ کہ وہ ادب میں سمت نمائی کا فریضہ ادا کرنا چاہتا ہے، یہ کہ وہ ادبی افق کو اسلوبی، موضوعاتی اور کیفیتی وسعت دینے کا خواہش مند ہے، یہ کہ وہ ادب کی انفرادی ہستیوں کو جمال کے ساتھ کھلے تناظر میں سامنے لانا چاہتا ہے، یہ کہ وہ ادبی معاملات، سوالات اور مباحث پر غور و خوض اور تفکر کی دعوت دینا چاہتا ہے، یہ کہ وہ اردو دان طبقے کو عالمی ادبی تخلیقات اور مسائل سے سمجھ بوجھ کے ساتھ روشناس کرانا چاہتا ہے، یہ کہ وہ ادب کو محض کسی مخصوص خانے یا نظریے میں بند نہیں سمجھتا بلکہ مدور نگاہی اور کشادہ نظری کا قائل ہے، یہ کہ وہ جہاں اپنی قوم، اپنے سماج کی جڑوں کو اور سماج کے بدلتے ہوئے دھاروں کو شعریاتی سطح پر جاننے کا آرزومند ہے وہا بین الاقوامی سماج کی تفہیم کی طرف بھی اس کا رخ ہے، یہ کہ وہ ادب میں سیاست، پلپلی صحافت اور گندی جمہوریت سے باز رہنا چاہتا ہے، یہ کہ وہ عصر کے ساتھ ماورائے عصر کی طرف بھی گہرا میلان رکھتا ہے۔ ان باتوں کا دائرہ مذید بڑھایا جا سکتا ہے۔ بہر کیف آپ چونکہ جینوئن شاعر پہلے ہیں اور اب ادارت کی طرف آ رہے ہیں تو گویا آپ ایک بھاری ذمہ داری کو قبول کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو بے حد محنت، خنک مزاجی، ادراک اور جمالیات سے کام لینا ہو گا۔ آپ کے پرچے سے آپ کی مدیرانہ اصالت لازماًً جھلکنی چاہیے۔ آج ہمارے ادبی منظر نامے پر جہاں کئی ایک کٹے پھٹے، مرگھلے پرچے ہیں وہاں ارفع و اصیل جرائد بھی ہیں۔ ان جرائد کا نام لینے کی ضرورت نہیں، اہلِ نظر ان سے بخوبی واقف ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کا پرچہ اپنے تاثر اور کام میں انتہائی معیاری اور ارفع و اصیل ثابت ہو گا۔ میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

(اپریل 1997ء)

دوستوں کے پُر خلوص اندیشوں، توقعات، خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ اپریل 1997ء میں، جب میری رہائش میرپور آزاد کشمیر میں تھی، لاہور سے تسطیر کا پہلا شمارہ منظرِ عام پر آیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تسطیر برِصغیر پاک و ہند کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مقبول ترین صفِ اول کا ادبی جریدہ بن گیا۔ پاک و ہند کے ایسے دور دراز علاقے جہاں اس سے پہلے کوئی ادبی رسالہ نہیں جاتا تھا تسطیر وہاں بھی جانے لگا۔ اپنے جدید ترین ادبی رجحانات، تازہ تر تخلیقی و تنقیدی موضوعات، اداریوں اور مباحث کے باوصف یہ عالمی سطح کا ادبی جریدہ سمجھا جانے لگا۔ کچھ سال باقاعدگی سے نکلنے کے بعد میری نجی مصروفیات، خرابیء صحت اور راولپنڈی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے باعث اس کی اشاعت میں وقتی خلل آیا لیکن پھر بحال ہو گیا۔ تاہم 2012ء کے بعد میں اس کی اشاعت برقرار نہ رکھ سکا اور اپنے تئیں اسے ہمیشہ کے لیے بند کرتے ہوئے اس کا سارا ریکارڈ بھی ڈسٹ بن کی نذر کر دیا۔ اس کے باوجود اس کے لیے نگارشات، لاہور، میرپور اور راولپنڈی کے پتا پر مسلسل موصول ہوتی رہیں جن سے کچھ نئے رسالوں کا پیٹ بھرتا رہا۔

2017ء کے عین اوائل میں جب میں نے تسطیر کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا تو ایک دن اچانک بک کارنر پبلشرز کے گگن شاہد، امر شاہد برادران نے تسطیر شائع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اشاعت کے اخراجات سے لے کر ترسیل و تقسیم تک تمام ذمہ داریاں اٹھانے کا عندیہ دیا۔ پہلے تو مجھے ان دونوں بھائیوں کی دماغی صحت پر کچھ شک ہوا لیکن پھر ان کی گرم جوشی، کتاب دوستی، ادب نوازی اور کتابوں کے کاروبار میں کامیابی اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے حامی بھر لی۔ یوں تسطیر کتابی سلسلہ کے روپ میں ایک بار پھر زندہ ہو گیا اور اب تک زندہ ہے۔ کب تک زندہ رہے گا یہ تو معلوم نہیں لیکن مذکورہ خطوط میں احباب نے جن توقعات، خواہشات اور خدشات کا اظہار کیا ہے انہیں سامنے رکھ کر اب تک کی کارکردگی کو ضرور پرکھا جا سکتا ہے۔ وہ خدشات کہاں تک درست ثابت ہوئے اور تسطیر اور مدیر تسطیر سے وابستہ توقعات و خواہشات کہاں تک پوری ہوئیں، اس کا بہترین فیصلہ وقت اور قارئین ہی کر سکتے ہیں.