!!تبصرہ بر ناول “راجہ گدھ” از مصنفہ بانو قدسیہ

News Feed posts

[ تبصرہ بر ناول “راجہ گدھ” از مصنفہ بانو قدسیہ ]

ادبی حلقوں میں بانو قدسیہ صاحبہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔آپ باصلاحیت مصنفہ تھی۔آپ ناول نگار ،افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھی لیکن ناول “راجہ گدھ “نے بانو قدسیہ کے تخلیقی کام کو دوامِ شہرت پہنچانے کا باعث بنا آپ کو معروف افسانہ و ناول نگار بابا اشفاق احمد (زاویہ،من چلے کا سودا) کی زوجیت کا شرف بھی ملا۔بانو قدسیہ کی دیگر تصنیفات،جن میں افسانوں کے مجموعے اور ناول شامل ہیں۔

مندرجہ ذیل ہیں بازگشت ،امر بیل،دست بستہ ،سامان وجود،توجہ کی طالب ،آتش زیرپا ،راجہ گدھ،حاصل گھاٹ شامل ہیں.

راجہ گدھ کا شمار اردو کے کلاسیکی ناولز میں ہوتا ہے۔اس ناول کا سنِ اشاعت 1981ء ہے ناول میں فلسفہ حلال و حرام بیان کیا گیا۔اسے چار ابواب میں تقسيم کیا گیا۔(لاحاصل عشق،لامتناہی تجسس ،رزق حرام،موت کی آگاہی) اس کی طوالت 562 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ناول کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم۔اے سوشیالوجی کی کلاس کا آغاز ہوتا ہے جس میں طلباء،طالبات اپنا تعارف کرواتے ہیں۔سیمی شاہ آزاد خیال اور دلکش دوشیزہ ہوتی ہے اُس کا بے تکلفانہ انداز اور ادائیں کسی کابھی دل مو لیتی ہیں اِس کی محبت میں قیوم مبتلا ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنے ہم جماعت کشمیری لڑکے آفتاب کو دل دے بیٹھتی ہے۔قیوم ایک دیہاتی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے عام شکل و صورت والا مگر نہایت ذہین طالب علم ہوتا ہے۔پروفیسر سہیل موضوع سخن خود کشی کے اسباب کو بناتا ہے جس پر طلباء اس کی وجہ دیوانگی،عشق لاحاصل کو قرار دیتے ہیں۔آفتاب اور سیمی کے معاشقے کے چرچے پورے کالج میں ہوتے ہیں ایک دن اچانک سیمی شاہ پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر دیتی ہے اور قیوم کو آفتاب کی شادی کا کارڈ ملتا ہے اس طرح کہانی آگے بڑھتی ہے اور آفتاب شادی کر کے امریکہ چلا جاتا ہے اور سیمی شاہ ،آفتاب کے لاحاصل عشق میں خود کشی کر لیتی ہے نیند آور دوائیں کھا کھا کر۔قیوم کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ آفتاب نے سیمی کو کیوں چھوڑ دیا اور زيبا نامی لڑکی سے شادی کیوں کر لی؟ کہانی کے اختتام پر علم ہوتا ہے کہ پروفیسر سہیل بھی سیمی کی زلفوں کا اسیر ہوتا ہے وہ آفتاب کو بہکا دیتا ہے کہ سیمی جیسی آزاد خیال لڑکیاں وفا نہیں کر سکتی۔جس کی وجہ سے وہ سیمی سے شادی نہیں کرتا۔قیوم کے کردار کو گدھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے وہ سیمی کی دلجوئی کے بہانے محبت تو حاصل نہیں کر سکتا مگرکافور کے درخت کے نیچے سیمی کی دیوانگی والی کیفیت میں جسم پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور عابدہ نامی عورت کو اولاد کی لالچ دے کر اس سے بھی حرام تعلق قائم کر لیتا ہے۔بانو قدسیہ نے فلسفہ حلال و حرام بیان کیا ہے اس کے متعلق انسان کی دیوانگی کی وجہ رزق حرام کھانے کو قرار دی یا اس کی وجہ حرام کاری میں مبتلا ہونا بھی بنتی ہے اور اس دیوانگی کے اثرات آپ کی اگلی نسلوں تک منتقل ہو جاتے ہیں جیسے قیوم کا باپ حرام خوار ہوتا ہے اس لیے قیوم بھی حلال و حرام کی فکر کیے بغیر دو عورتوں سے جسمانی تعلق رکھتا ہے۔یعنی اگر آپ حرام کھائیں گے یا کام کریں گے تو آپ کی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا یا آپ کی نسل اپاہج پیدا ہوگی۔بعض جگہ مبالغہ کی حد تک اساطیری رنگ بھی ناول میں ملتا ہے مثلاٙٙ قیوم دربار پر ایک صوفی بابے کے پاس جاتا ہے جو اسے کہتا ہے میں تمہیں سیمی کی روح سے ملواؤ گا اور قیوم کی ملاقات اس صوفی صاحب کے مرے ہوۓ مرشد سے ہوتی ہے جو کہ حقیقی دنیا کی ترجمانی نہیں کرتا ۔بانو قدسیہ کے فلسفہء حرام و حلال سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ناول کی کہانی آغاز تا اختتام تک قاری پر مختلف کیفیات طاری کردے گی کبھی آپ زیرِ لب مسکرا دیں گےکبھی آپ فسوں کے خول میں بند ہو جائیں گے معیاری ناول ہونے کا میزان اس کی صخامت(موٹائی) اور طوالت نہیں ہوتی بلکہ اندر تخلیقی مواد ہوتا ہے جو کہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ دے جو اس کی حقیقی زندگی کی عکاسی کرے راجہ گدھ کی طرزِ نگارش بہترین ہے ساتھ ہی مصنفہ قارئین کو دقیق فلسفیانہ بحر میں غوط زن کرواتی ہیں جس سے قاری کو دقت پیش آسکتی ہے ناول میں خاص طور پر مکالمہ نگاری فن کی معراج پر پہنچی ہوئی ہے منظر نگاری بھی احسن انداز میں پیش کی گئی ہے سیمرغ کی زیر صدارت جنگل میں “راجہ گدھ” پر مقدماتی تناظر بالغ الذہن قاری کے لیے سامانِ تسکین بنتا ہے مجموعی طور پر اگر اپنے ناول کے آٹھ ،دس صفحات ہی پڑھ لیں تو یہ ناول خود آپ کو مجبور کر دے گا کہ آپ اسے مکمل پڑھیں ورنہ بانو آپا خواب میں آکر بھی آپ سے “راجہ گدھ” پڑھوا لیں گی۔

از قلم عادی خان

عالمی ﺍﻓﺴﺎﻧﻮﯼ ادب