!!ایم نصراللہ نصرؔ کی کتاب:”بنگال میں اردوناولٹ نگاری

  ” بنگال میں اردو ناولٹ نگاری” ایم نصراللہ نصر ؔ کی آٹھویں تصنیف ہے۔ اس سے قبل ان کے تین شعری مجموعے ” امکان سے آگے”، ”ثنائے رب” اور ”احساس نگر” منصہ شہود پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے تنقید اور تحقیق پر چار کتابیں ” افہامِ ادب”، ”انتقاد و استبصار”، ”اذکارِ ادب” اور ” بنگال میں اردو نظم نگاری لکھ کر اپنی تنقیدی و تحقیقی کاوشوں کا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔

زیرِ تبصرہ کتاب  ” بنگال میں اردو ناولٹ نگاری ”  ایک تحقیقی کاوش ہے جس میں مصنف نے پہلے ناولٹ نگاری کا جائزہ لیا ہے اور پھر اس کے بعد اس کی تعریف، توصیف اور خصوصیات کو سمجھانے کے ساتھ اس روایت اور تاریخی حیثیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ کتابوں کا تجزیہ ان کی تنقیدی بصیرت کا عمدہ نمونہ ہے۔ ایم نصراللہ نصر ایک سنجیدہ ادیب ہیں اور جس موضوع کو ضبط ِ تحریر میں لاتے ہیں، اس کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہیں۔

مذکورہ کتاب میں ایم نصراللہ نصرؔ نے سب سے پہلے ہندوستان میں لکھے گئے ڈھیر سارے ناولٹس کا تعارف وتجزیہ پیش کیا ہے اور اس کے بعدموصوف اپنے خاص موضوع ” بنگال میں اردو ناولٹ نگاری کا جائزہ پیش کرتے ہوئے یہ باور کرانے میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں کہ بنگال بھی ہندوستان کے دوسرے صوبوں کی طرح اس معاملے میں بہت پیچھے نہیں ہے اور یہاں بھی اردو ناولٹ کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جس پر اہل ِ بنگالہ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ زیر ِ تبصرہ کتاب میں انھوں نے ناولٹ نگاری کے سلسلے میں جو اپنی آراء پیش کی ہیں وہ یقیناً لائقِ تحسین ہیں۔ ناولٹ کی ابتدا اور ارتقاء کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

” ناولٹ نگاری کی باضابطہ ابتدا اور ارتقاء کی نہ کوئی تاریخ ہے نہ کوئی عہد ‘ نہ متعین اصول۔ کوئی  متفق اور منتخب رائے بھی نہیں ہے۔ اردو ناولٹ کے موضوع پر کوئی اہم تحقیقی کام بھی نہیں ہوا ہے۔ ہوا بھی ہے تو چند ایک۔ دوسری بات یہ کہ ناولٹ کو اردو ادب میں بہت بعد میں پہچانا گیا اور اسے ایک الگ صنف کا درجہ عطا کیا گیا۔ ” (ص۔ 12)

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ توسیعی نثری داستان یا مختصر ناول کو ناولٹ کہتے ہیں۔ اس میں مصنف کو ایک مخصوص حد بندی میں اپنی کہانی کو رقم کرنی پڑتی ہے اور اپنے تجربات و مشاہدات کو بروئے کار لاکر قارئین سے اپنی صلاحیتوں کو منوانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔  اس سلسلے میں نصر کا کہنا ہے:

” ناولٹ ناول سے الگ نہیں لیکن مکمل ناول بھی نہیں ہے،’ زیادہ تر لوگ اس کی شناخت اس کی ضخامت کی بنیاد پر کرتے ہیں لیکن یہ اس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔ دوسری خصوصیات میں اس کی کہانی اور پلاٹ منفرد اور مختصر ہو۔ کہانی کسی ایک یا چند کردار پر مرکوز ہو۔ ناولٹ نگار کا مقصد بھی مخصوص و محدود ہو۔ اس کا اختصار اس کی مقبولیت کا راز ہے۔ ” (ص  18-17)

فاضل مصنف نے ناولٹ کا آغاز و ارتقا پر بحث کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ پہلا ناولٹ نگار کون ہے ‘ اس کے متعلق ناقدین کی الگ الگ رائے ہے اور اس کا فیصلہ کرنا ایک مشکل امر ہے لیکن مجموعی طور پر ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب ” ایامی ” میں وہ تمام خصوصیات ملتی ہیں جس کی بنیاد پر اسے ناولٹ کہا جاسکتا ہے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مصنف نے ہندوستان اور پاکستان میں لکھے گئے تقریباً 90 سے زائد ناولٹ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے جن ناولٹ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اس میں ڈپٹی نذیر احمد کا ایامی ‘ رتن ناتھ سرشار کا ہشو اورکڑ دھم دھم ‘ عبدالحلیم شرر کا بدر النساء کی مصیبت’ پریم چند کا روٹھی رانی اور بیوہ’ نیاز فتحپوری کا ایک شاعر کا انجام  اور شہاب کی سرگزشت’ کشن پرشاد کول کا شیاما ‘ سجاد ظہیر کا لندن کی ایک رات ‘ عصمت چغتائی کا ضدی ‘ سعادت حسن منٹو کا بغیر عنوان کے ‘ کرشن چندر کا طوفان کی کلیاں اور اپندر ناتھ اشک کا پتھر الپتھرخاص ہیں –

مندرجہ بالا ناولٹ کا ذکر کرنے کے بعد فاضل مصنف نے 1960 کے بعد کے اردو ناولٹ نگاری کا جائزہ لیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑی تبدیلیاں آئیں۔ سیاسی و سماجی حالات بدلے۔ جس کے نتیجے میں ڈھیر سارے مسائل جنم لیے۔ ان مسائل پر مبنی 25 ناولٹ سامنے آئے۔ ان میں قرۃ العین حیدر کے چار،سیتا ہرن (1960) ‘،چائے کے باغ (1964)، اگلے جنم مجھے بٹیا نہ کیجو (1976) اور دلربا (1981)، جیلانی بانو کے دو نغمہ کا سفر (1963) اور کیمائے دل (1967)، راجندر سنگھ بیدی کا ایک چادر میلی سی (1960)، کرشن چندر کا دادر پل کے بچے (1960)،’ خواجہ احمد عباس کا دو بوند پانی (ساتویں دہائی)، قاضی عبدالستار کا مجو بھیا (1961)، عصمت چغتائی کا  دل کی دنیا (1972)، حیات انصاری کا مدار (1981)،بانو قدسیہ کا موم کی گلیاں (2010) اور شموئل احمد کا چمڑا سر (2019) خاص ہیں۔

ہندوستان گیر سطح پر ناولٹ کا آغاز و ارتقا کے بعد ایم نصراللہ نصر ؔ نے ”بنگال میں اردو ناولٹ نگاری” پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور اپنی تحقیقی کاوشوں سے 1917 سے لے کر 2021 تک کے 25 ناولٹ کا تذکرہ و تجزیہ کیا ہے۔ ان ناولٹس میں شین مظفر پوری کے دو’ بشیر الدین ظامی کے دو، صغرا سبزواری کے دو اور صدیق عالم کے دو ناولٹس کا تجزیہ بھی شامل ہے۔ مغربی بنگال میں ناولٹ نگاری سے متعلق نصراللہ نصر کی رائے کچھ یوں ہے۔

” میرا موضوع بحث چونکہ بنگال میں ناولٹ نگاری ہے تو اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اس کی شروعات تاخیر سے ہوئی اور بنگال میں کافی کم ناول اور ناولٹ لکھے گئے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بنگال میں لکھے گئے ناول اور ناولٹ کی اہمیت اردو ادب میں کوئی خاص نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو بھی لکھا گیا اس کی قدر نہیں کی گئی۔ (ص۔ 105)

ایم نصراللہ نصر نے بنگال کے پچیس (25) ناولٹ کا صرف تذکرہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ گہرائی سے ان کا شاندار تجزیہ بھی کیا ہے جو ان کی علمی و تنقیدی بصیرت کا اشاریہ بھی ہے۔ تحقیق کے ساتھ تنقید کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ جس محقق کے یہاں تنقیدی بصیرت کے جوہر زیادہ ہوں گے ‘ یقیناَ اس کا تحقیقی کام اتنا ہی اعلیٰ ہوگا۔ اس بات سے غالباً سبھی واقف ہیں کہ تحقیق کا کام کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ نصر نے بھی اس کتاب میں اس کمی کے طرف اشارہ کیا ہے لیکن انھیں اس بات کا ادراک ضرور ہے کہ باشعور اور پختہ کار محقق اپنی تنقیدی بصیرت سے اپنے تحقیقی کام کو بہت حد تک کامیابی سے ہم کنار کرلیتا ہے۔ بنگال کے جن پچیس ناولٹ کا انھوں نے ذکر کیا ہے ان کے متعلق وہ کہتے ہیں:

  ” ان ناولٹ کے مطالعے کے بعد قارئین کو اس کا اندازہ ہوجائے گا کہ بنگال ادبی تخلیقات اور نثری تصنیفات سے خالی نہیں ہے بلکہ اس کا بھی دامن متعدد ادب پاروں سے مالامال ہے جن کا بصیرت افروز تجزیہ ہونا باقی ہے۔ ”

زیرِ تبصرہ کتاب کے اخیر میں نصر نے اس کا اختصاص پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ناولٹ نگاری بیسویں صدی کے آغاز کی پیداوار ہے اور یہ کہ ناولٹ نگاری جدید دور کی ایجاد ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے کے ناولٹ مخصوص دائرے میں قید تھے لیکن اب صورتحال میں تبدیلی آئی ہے اور دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی نئے نئے موضوعات پر لکھنے کی کوشش ہورہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے ‘ نیز بنگال میں اردو ادب پہلے سے زیادہ بلند نظر آرہا ہے۔ یہ اور بات ہے پہلے اس کے انکشاف میں کوتاہی برتی گئی ‘ مزید یہاں کے ادیب بھی زیادہ فعال و متحرک نظر آرہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بنگال سے باہر کے ناقدین کی توجہ بھی اس جانب مرکوز ہوئی ہے۔ المختصر یہ کہ بنگال کی ادب نگاری خصوصی طور پر ناولٹ نگاری قابلِ اعتبار ضرور ہے۔

ایم نصراللہ نصر ؔ کی کتاب ” بنگال میں اردو ناولٹ نگاری” ایک عمدہ تحقیقی کاوش ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اپنی بات بیباکی سے رکھی ہے اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی ہے جو انکی فطرت کا خاصہ بھی ہے۔ یہ کتاب مغربی بنگال میں ناولٹ کے تعلق سے ایک سنگِ میل ثابت ہوگی اور بعد کے محققین اس کی بنیاد پر مزید نئی راہیں تلاش کریں گے۔ امیدِ کامل ہے کہ اردو ادب کا سنجیدہ حلقہ اس کتاب کو سراہے گا اور نصراللہ نصر کی ادبی کاوشیں مزید نء  منزلیں حاصل کریں گی

 مبصر:عظیم  انصاری،جگتدل، مغربی بنگال، انڈیا – رابطہ نمبر- 9163194776