!اکیسویں صدی کے ٢١ سبق

بظاہر انسان کو دیکھا جائے تو وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور پوری طرح آزاد ہے۔ بظاہر وہ کسی طرح کی زنجیروں میں لپٹا ہوا نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی مرضی سے حرکت کرتا اور فیصلے کرتا ہے۔ لیکن انسان کے ذہن پہ کسی اور کا قبضہ ہے۔ اسکا اپنے اوپر کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ اسکے دماغ پہ بہت سی چیزوں کا قبضہ ہے۔ جو اس سے تمام فیصلے کرواتی ہیں۔ انسان تعصب میں لپٹا ہوا ایک وفادار غلام ہے جس پہ اس کے عقائد، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا قبضہ ہے۔ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی جدت انسان پر بہت گھمبیر اثرات ڈال رہے ہیں۔انسان پوری دنیا کے ساتھ جڑنے کے باوجود اندر سے بہت اکیلا اور اداس ہو گیا ہے۔ اپنی اداسی اور تنہائی کو دور کرنے کے لیے وہ پوری طرح سے کمپیوٹر اور موبائل سکرین میں کھو گیا ہے۔

لیکن بد قسمتی سے سکرین اسکی تنہائی اور اداسی کو کم کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ بلکہ مزید کئی طرح کی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کو جنم دے رہی ہے۔ عدم برداشت، خودکشی، غصہ، چڑچڑاپن، ڈپریشن ، انگزائٹی، جیسی بیماریاں عام دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اگر انسان اس صدی میں اپنی بقا چاہتا ہے تو اس کے پاس ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ انسان محض ایک روبوٹ رہ جائے گا۔ جو اپنے اوپر اپنا اختیار کھو دے گا۔ اور اس کے تمام افعال کو چند کمپنیاں اپنی مرضی سے چلائیں گی۔یہ کتا ب موجودہ صدی کے ان تمام ضروری علوم سے بھرپور ہے۔ٹیکنالوجی کے علاوہ اور بھی بہت سے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، جیسا کہ، ملازمتوں کا رجحان کیا ہو گا؟ آزادی کا کیا مطلب ہے؟ جنگ ، تعلیم ، ڈیٹا سائنس ، سیاسی چیلنج ، جوہری چیلنج ، ماحولیاتی چیلنج ،مذہب، ہجر ت ، دہشت گردی، تہذیب، قوم پرستی وغیرہ۔ اگر آپ اس صدی کے تمام علوم سے باخبر ہوناچاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے لیے ایک بیش بہا تحفے سے کم نہیں ہے۔

ابن محمد یار