!!انجیل صحیفہ کی غزلیں

چہچہاتی چڑیوں کو بولنا سکھا دوں کیا؟

شور کرتے جھرنوں کو اور بھی ہوا دوں کیا؟

قید ہے جو مٹھی میں، سانس کیوں نہیں لیتا

وقت گر پرندہ ہے میں اِسے اڑا دوں کیا؟

رات پینٹ کردی ہے میں نے اپنے کمرے میں

آسماں بنا کر اب، چاند بھی بنا دوں کیا؟

زندگی کے مرگھٹ پر چھوڑ آؤں خواہش کو

جلدی سونے والوں کو نیند سے جگا دوں کیا؟

میں نے اپنےخوابوں کے تیل سے جلایا ہے

نیند آگئی ہو تو اب دیا بجھا دوں کیا؟

جھیل میں ملا دی ہے چاندنی بھی تھوڑی سی

اب میں تیرے کاندھے پر اپنا سر جھکا دوں کیا؟

جتنے پھول ہیں انجیل مجھ سے رنگ لیتے ہیں

تم کہو توتتلی کو بات یہ بتا دوں کیا؟

—– 2 ——

سیپ مٹھی میں ہے آفاق بھی ہو سکتا ہے
اور اگر چاہوں تو یہ خاک بھی ہو سکتا ہے

یہ جو معصوم سا ڈر ہے کسی بچے جیسا
ایسے حالات میں سفاک بھی ہو سکتا ہے

آؤ اس تیسرے نکتے پہ بھی کچھ غور کریں
ہم جسے جفت کہیں طاق بھی ہو سکتا ہے

وجد میں رقص تو بے خوف کیا جاتا ہے
ہو اگر عشق تو بے باک بھی ہو سکتا ہے

ہجر ناسور ہے چپ چاپ ہی جھیلو اس کو
آہ و زاری سے خطرناک بھی ہو سکتا ہے

یہ جو سر سبز سا لگتا ہے امیدوں کا شجر
رت بدلنے پہ یہ خاشاک بھی ہو سکتا ہے

تو ابھی بھیج دے اس پار سے رحمت کوئی
میں یہ سنتی ہوں کرم ڈاک بھی ہو سکتا ہے

وہ جو کوسوں تجھے پھیلا ہوا آتا ہے نظر
وہ سمندر مری پوشاک بھی ہو سکتا ہے

یہ سیاہ بخت اسے ڈھونڈنے لگ جائیں اگر
ان کو پھر نور کا ادراک بھی ہو سکتا ہے

میں جو مٹی سے خدا اور بنانا چاہوں
آسماں میرے لیے چاک بھی ہو سکتا ہے

کیوں نا انجیلؔ دوبارہ سے اتاری جائے
کوئی عیسائی کی طرح پاک بھی ہو سکتا ہے

——– 3 ———-

میں خواب نگر کی شہزادی، میں نیل گگن میں اڑتی ہوں
میں پھول ہوں سرخ بہاروں کا، میں رنگ برنگی تتلی ہوں

میرا روپ سنورنا جانتا ہے، میرا روپ اجڑنا جانتا ہے
تیرے ایک اشارے ہنستی ہوں، تیرے ایک اشارے روتی ہوں

میں رات کو تارے گنتی ہوں اور دن میں پھول اگاتی ہوں
کبھی ہنستی ہوں کبھی روتی ہوں، میں کتنی پاگل لڑکی ہوں

کوئی بانسری والا گاتا ہے، مجھے پربت پار بلاتا ہے
مجھے کام ہیں لاکھوں دنیا کے، میں کیسے وہاں جاسکتی ہوں

میری آنکھوں سے بہتا پانی، تیرے چہرے کی یہ ویرانی
کہتے ہیں تو کوئی جوگی ہے، اور میں بھی پیار کی داسی ہوں

میں برف رتوں کا سپنا تھی تو دھوپ میں رکھ کے بھول گیا
تو میری اذیت کیا جانے میں قطرہ قطرہ پگھلی ہوں

ذرا دیر ٹھہر میرے دل میں اتر، انجیل ہوں مجھ کو غور سے پڑھ
میں حرف حرف ہوں بامعنی میں تیری پریم کہانی ہوں