!!!ابد کنارے تلک بھیگتا چلا جاؤں

بہت دِنوں سے کوئ خواب ہی نہیں آیا

بہت دِنوں سے ہیں رستے گلی اُداس اُداس

بہت دِنوں سے پرندے ندی درخت ہیں چُپ

بہت دِنوں سے نہ رستے دھمال ہی گزرا

نہ گُل عِزار سِتارہ جمال ہی گزرا

بہت دِنوں سے ہے شورِ شغال و سگ کا ہُنر

کہ جِس ہُنر کی فضیلت

تمام رنج و فغاں

جو اصل دیکھتی ہے آنکھ، خواب کیا آئے

بہت دنوں سے کوئ خواب ہی نہیں آیا

بہت دِنوں سے

عجائب کا سلسلہ ہے عجب

سِتارے ٹوٹ کے گرتے ہیں راکھ ہو ہو کر

دیئے جوں بُجھتے ہیں

بُجھتی ہیں ساری اُمّیدیں

ڈرا سا کوئ

کھنڈر آستاں میں روتا ہے

کوئ چراغ جلے، کوئ بام پر آئے

ذرا اُجالا تو پھیلے کہ سمت روشن ہو

بہت دِنوں سے ہے آلودہ

كشت زارِ بدن

ہوائے تُند چلے، سَیلِ آب ہی گزرے

کسی طرف سے تو نکلے

ہجومِ غم زدگاں

کوئ تو موجِ بلا آئے، سب بہا لے جائے

بہت دِنوں سے

تہجد گزار ہیں آنکھیں

اب اور کتنا اِنہیں رزقِ کِذب ہونا ہے

کہیں سے کوئ تو خوش کُن مُراسلہ آئے

صدا لگاتا گلی سے تو گزرے ہرکارہ

کہ شہرِ حزن میں رِم جِھم سماں ہے ساون کا

سُنائ دے کوئ مُژدہ کہ پھر سمیٹوں مَیں

یہاں وہاں سبھی بکھرے ہوئے بدن ریزے

قلم کتاب اُٹھا کر رکھوں ڈراور میں

تمہارا ہاتھ ذرا دیر ہاتھ میں تھامے

کُھلی ہوا میں نظاروں کی سیر کو نکلوں

تمہارے ساتھ

ہری دُوب پہ پھسلتا ہوا

ابد کنارے تلک بھیگتا چلا جاؤں !!

© انور شمیم