آفتاب علم و ادب شاعر چہار زبان شیخ غلام حسین سحر مرحوم ہم سے بچھڑ گئے

آفتاب علم و ادب غروب ہوگیا ۔

تحریر محمد رضا ربانی 

عالم شب زندہ دار ،عارف  زمان، مردقلندر، وقت کے بہلول ،  بو ذر عصر،صوفی منش،شاعر چہار زبان شیخ غلام حسین سحر ہم سے بچھڑ گئے ۔بہلول زمان سیرت علی پر گامزن ہوتے ہوئے دنیا کو خیر باد کہہ کرعشق الہی میں زندگی گزارتےرہے، لیکن بالآخر  اپنے معبودکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دارِ فانی کو خیرباد کہہ کر حیات ابدی کی طرف کوچ کر گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد اہل ِعلم و ادب ان کے سایہ علمیت سے، ادب پر ور حضرات ایک با بصیرت عابد وزاہدسخنورسے،صوفیانہ عارفانہ گلستان،  مہک اور رونق سے جبکہ ان کے شاگرد ایک روحانی باپ سے محروم ہوگئے۔شیخ غلام حسین سحرسے کئی بارسکردو اور اسلام آباد میں ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

 جب بھی کہیں پرشیخ سحر کا نام لیا جاۓ تو فقیرانہ طرز زندگی گزارنے مگر قوم و ملت کو فہم و شعور کی دولت سے مالا مال کرنے، اپنے کلام سےمحفلوں کو لوٹنے اور منفردلب و لہجے  سے لوگوں کے دلوں کو مسرور اور خوش کرنے والی ہستی ذہن وخیال میں آ جاتی ہیں۔ شیخ غلام حسین سحر ایک صوفی منش شاعر تھے ۔دوسرے صوفی شعراء نے بھی اللہ کی بندگی کرتے ہوئے کمال تک رسائی حاصل کی لیکن شیخ سحر کے حالات زندگی،قول و فعل اور کردار نہایت منفرد اور ممتاز تھے۔جدید دور میں بھی عوام   و خواص سے دور اور الگ ہو کر جنگلوں ،غاروں کو آباد نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ان کا کمال یہ تھا کہ اس نفسانفسی کے عالم اور  دور جدید میں بھی بقول  ان کے “دور پر فتن” معاشرےکے لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کر کے بانٹتےرہے۔ان کے ہاں قوم و ملت سے کچھ لینے، حاصل کرنے دوسروں کی طرح نام و نمود شہرت وغیرہ کا وہم وگماں بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ وہ معاشرے قوم وملت میں رونما ہونے والے حالات اور لوگوں کے رویوں کو خوب جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگوں کی اصلاح کرنے ،علم و ادب اور احکام الہی کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے نہ صرف وعظ ونصیحت کرتے تھے بلکہ آخری سانس تک اپنےراحت آمیز اشعار کے ذریعے شمع معرفت  کو فروزاںرکھا اورلوگوں کےاذہان و افکار کو منور و معطر کرتے رہے۔ 

عشق الہی 

شیخ غلام حسین سحر نے عمر بھر عشق الہی  کےگلستان کو معطروآباد رکھا۔انہوں نے فارسی، عربی ،اردو اور بلتی زبان میں نہایت عمدگی کے ساتھ شاعری کی ۔انہوں نے اللہ تعالی کی مدح و ثنا  خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔ان کے کلام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عشق و معرفت کے اوج پر تھے۔وہ ہر وقت حق کی  تلاش اور  معرفتِ الہی  کی راہوں کے راہی  بن کر ہر قدم  ہر سانس اللہ تعالی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لطف حاصل کرتے تھے۔  ان کا لکھا ہوا ایک ایک کلام خوبصورت ہے لیکن  حمدیہ کلام بہت اعلٰی و عمدہ ہے۔اس کلام میں  ثنائے الہٰی کو بیان کرنے کا انداز و سخن نہایت منفرد ہے۔ وہ  دنیاکی ہر چیز میں نہ صرف اللہ کو تلاش کرتے تھے بلکہ ان چیزوں میں موجود نعمت ِ الہٰی اور خالق کی طرف سے عطا ہوئی خوبصورتی و حسن کو بیان کرتے تھے۔ وہ پہاڑ ہو سمندر،دریا کی لہریں ہو یا آبشار، دامن کوہسار یہاں تک کہ گلاب  کی حفاظت پر مامورکانٹوں کو نعمت ِالہٰی اور حسن و زیبائی سے تعبیر کیا ہے ۔انہوں نے انسان کی خلقت کے ساتھ ان کے دونوں ہاتھوں ،دونوں پیروں،کانوں اور دونوں آنکھوں کو جوڑے کی صورت میں بناکرانسان کو انتہائی حسن وخوبصورتی سے نوازنے کو ایک موازنہ اور مقائسہ کے انداز میں  نہایت خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ بیان کی ہے۔

کنگ چیگی چہ کنگ ،لق چیگی چہ لق،سناچیگی چہ سنا ،مک چیگی چہ مک 

بیوری یونگ لا لہ تروق یانی منمناشزدےچن اشی یری شزدےان

 ان کی صوفیانہ، عارفانہ اور عالمانہ صلاحیت کی حقیقت  شاید یہ تھی کہ اول تو  ان کی ولادت سرزمین صوفیائے کرام میں ہوئی، عہد طفلی ہی سے بوا عباس جیسے قادر الکلام شاعر اہل بیت کے علم و معرفت پر مشتمل کلام دن رات سنتے چلے آرہےتھے، خاص کر اہم بات یہ تھی بقول ان کےکہ ” میں نے دنیا کی تمام لذتوں اور چیزوں کو چھوڑ کر عشقِ الٰہی کی اس وادی میں شعوری طور پر کامل ایمان و یقین کے ساتھ قدم رکھا ہے” 

تصورِ موت 

 موت ایک اٹل  حقیقت ہے اس سے انکار کرنا کسی کی بس میں نہیں ہے۔مختلف شعرا نے تصور موت کو مختلف انداز فکر کے ساتھ اشعار کی صورت میں بیان کیا ہے ،بعض اس سے  خوف زدہ و گریزاں  نظر آتے ہیں تو بعض قدرت کے اس فیصلے پر  مجبور  ہو کر اسے  حقیقت تصور کرتے ہیں ،لیکن شیخ غلام حسین سحر کے ہاں موت ایک محبوب ترین شے تھی ۔موت تو لوگوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہےلیکن شیخ صاحب موت سے ملاقات کرنے کےلیےموت کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے تھے۔ وہ تمام تر رکاوٹوں کو توڑ کر حصار کو عبور کر کے موت کو گلہ لگانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ گھروں میں ہو لبِ دریا  ہو  یا پہاڑوں پر ،بلکہ وہ  انسانوں کو   کچھ لمحے زندہ رکھنے والی دوا میں بھی موت  کی   تلاش میں رہتے تھے،یہی وجہ تھی کہ محبت کرنے والوں کی تکرار کے باوجود کسی طبیب، ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کرتے ہوئے نماز کے حالت میں اپنی جان خالق و حکیم مطلق کے سپرد کرکے اس کی  بارگاہ میں چلے گئے۔آپ  موت کو مونس وغمخواراور رفیقِ جان تصور کرتے تھے ۔موت کے حوالے سے ان کے  اشعار قابل غور ہیں

 تھونے ڈاکٹر چی شے وخلا سواتنگسنارےستروق یقپا

لےنی موت سمن ناکھیانگ گڑیمسے سواتنگمی کھبنگ دوک ہے 

اردو میں یوں فرمایا ہے

جب حیات جاودانی موت کے پردے میں ہے 

پھر سحر تجھ کو ہے پیارا یہ خواب زندگی 

بےثباتی دنیا 

 وہ بے ثباتی دنیا اور زندگی کے بارے میں لوگوں کو شعور اور فکر دیتے رہے ۔بقول ان کے 

کب تلک دیکھے گی یہ دنیا سراب زندگی

 پی کے کس نےقےنہیں کی ہے شراب زندگی

  علامہ۔اقبال کا یہ شعر 

خودی کوکربلند اتنا کہ ہرتقدیرسے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

شیخ سحر پر صادق آتا ہے۔وہ اتنے خود دار صابر تھے کہ اگر کہیں کسی سے عنایات و نوازش کا شائبہ بھی ہوجاتا تو  اس سے کوسوں دور چلے جاتے تھے ۔ ان کو اللہ تعالی کی ذات پر کامل یقین تھا اور  وہ ہر قدم اللہ کی ذات کی قربت حاصل کرنے کے لئے اٹھاتے رہے، جب اللہ سے ربط و تعلق مضبوط ہوتا ہے تو کائنات کی ہر چیز ان کی گرفت میں آجاتی ہے۔ ان کو اللہ پر  کتنا یقین اور بھروسا تھا کہ انہوں نے پرندوں کی طرح کبھی بھی مستقل نشیمن وآشیانے بنانےکاکبھی نہیں سوچااور دوپہرکو نان جویں تناول فرمانے کے بعد شام کی فکر نہیں ہوتی تھی ۔نعمت ملنے پر شکر بجا لاتے تھے،بعض اوقات فقروفاقہ کو آزمائش سمجھ کر نہ صرف صبروشکر کرتے بلکہ نازاں  ہوتے تھے۔جب ان سے مکان، گھر بار اور زندگی کے بارے میں سوال کیا  جاتاتواپنے خوبصورت بلند آہنگ قہقہوں کے ساتھ فرماتے تھے”ادھر اللہ لامکان ہے ادھر زمین پر ان کا سحر کالامکان ہے”

عالم زمان و شاعر چہار زبان

 وہ نہ صرف چار زبانوں میں بہترین شاعری کرتے تھے بلکہ ماہر لسانیات  بھی تھے انہوں نے شاعری کے ذریعے زبان کو وسعت دی ۔ متروک ہونے والےخوبصورت الفاظ اور ضرب الامثال اور محاورات کو استعمال کیا۔نئے الفاظ ایجادو اضافہ کرکے زبان کو مزید وسعت دینے کی کوشش کرتے رہے۔وہ مختلف علوم پرگرفت رکھتے تھے ۔ان کو علم فقہ،علماصول،منطق،فلسفہ جغرافیہ،سیاست ،کلام،حدیث پرعبور حاصل تھا۔ اکیس ویں صدی میں بھی وہ  ٹی وی موبائل اور سوشل میڈیا سے کوسوں دور تھے لیکن اس کے باوجود  جدید سائنسی نظریات، تحریکوں ، انقلابات ،عالمی سیاست وغیرہ سے خوب واقف تھے۔ وہ مختلف موضوعات پر جب مدلل گفتگو کرنے لگتے تو زندگی تحصیل و تحقیق میں گزارنے والے پروفیسر حضرات بھی دنگ رہ جاتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ  کہ انہوں نے کارل مارکس کے نظریات  کو علمی وفکری انداز میں دلیل کے ساتھ   بیان کر کے روشن و جدید فکر رکھنے کے دعویداروں کو نہ صرف قائل کیا بلکہ کارل مارکس کے نظریے کے خلاف مسدس لکھا اور اسلامی معاشی  نظام کی وضاحت کی۔  

محب وطن شاعر 

شیخ غلام حسین سحر محب وطن شاعر تھے وطن کی محبت ان کے رگ وپے میں شامل تھی ۔وہ پاکستان سے والہانہ محبت کرتے تھے اس سرزمین کے لیے جان بھی دینے کے قائل تھے۔انہوں نے وطن سے محبت کے جذبات کا اظہار  اس انداز میں بیان کیاہے

 زندہ رہے میرا وطن

 ہےیہ بہت پیارا وطن 

مرنے کو ہے اس کے لیے 

حاضرہرایک روح وبدن 

وہ محب وطن ہونے کی وجہ سے جمہوریت کے قائل تھے جمہوریت پسند تھےاس لیےجمہوریت کو ملک اور عوام کے لئے مفید سمجھتے تھے۔صوفی شعرا کی تاریخ کی طرف نگاہ کریں  تو بعض  شعراوقت کے حکمرانوں کی ستائش کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں تک کہ شیخ سعدی بھی اسی صف میں نظر آتا ہے،لیکن شیخ غلام حسین سحر  ظالموں،جابروں اور آمروں  کے مخالف تھے انہوں نے آمروں کے خلاف لکھا ہےاور برملا سنایا بھی ہے

 ایک دفعہ آزاد جموں کشمیر کےمرکز و صدر مقام مظفرآباد میں ایک بڑی شعری محفل یعنی مشاعرہ ہورہا تھا اس میں ان کو بھی دعوت تھی جب شیخ سحر کو سٹیج پر بلایا گیااور یہ مرد قلندر اور صوفی منش ہستی  اپنے فقیرانہ لباس زیب تن کرکے ڈائس  کی طرف جانے لگےتو ابتدا میں لاکھوں روپے مالیت کے لباس میں نخوت کے ساتھ سٹیج اور اگلی صفوں اور نشتوں پر براجمان  افراد عامیانہ اورالگ نگاہ سے دیکھنے لگے جب شیخ سحر نے اپنا کلام سنانے لگے تو وہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے آخر میں انہوں نے یہ اشعار سنائے

جمہوریت کو توڑ کر

ملت کی گردن موڑ کر

کرسی پہ جابیٹھےہیں کیوں

یہ سرحدوں کو چھوڑ کر

بگڑی ہے ساری انجمن 

زندہ رہے میرے وطن

  صف اول میں بیٹھے ہوئے مغرور افراد پر سکتہ طاری ہوگیا  اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔  وہ اس بات پر شاکی رہتے تھے کہ ہماری سرزمین بہت زرخیز ہے زراعت  اور معدنیات سے استفادہ کرکے دوسرے ممالک اور اقوام کی مدد کرنے کے بجائے کاسئہ گدائی ہاتھ میں لے کر ہاتھ پھیلانے کی عادت ختم نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کفایت شعاری اور قناعت  پسندی کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کی جائے تو کسی کی طرف ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور قوم و ملت کی عزت بھی برقرار رہتی ہے۔

 دیکھو معاشیات کو

 ترسو نہیں خیرات کو

 اپنی ہی روٹی کھاؤ تم

 کم کرکے دن کو رات کو

 اپنا ہی پہنو پیرہن 

زندہ رہے میرے وطن 

 شیخ غلام حسین سحر کی شاعری میں طنز و مزاح کا عنصر بھی نمایاں ہے لیکن  بہت سنجیدگی پائی جاتی ہے ۔شیخ غلام حسین سحر نے معاشرے میں موجود ناانصافیوں، غلط رسم و رواج ،افکار غرض تمام موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ ان موضوعات میں شادی بیاہ کی رسومات، اولاد کو حقوق سے محروم رکھنے، منافقت وغیرہ شامل ہیں ۔انہوں نے  سب کی توجہ معاشرے میں پائی جانے والی  اس  سوچ کی طرف  باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بالادست افراد زیردست اور کم زور لوگوں  پر صرف اس وجہ سے ظلم و ستم کرکےان کے حقوق سلب کرتے ہیں کہ یہ لوگ ان کے تعاقب و مقابلہ  میں نہیں کر سکتے،ان کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کر سکتے جب کہ یہی طبقہ اپنے سے زیادہ طاقتور،چیرہ دست اور مال ومتاع رکھنےوالوں کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ شیخ غلام حسین سحر  جیسے  گوہرِ نایاب کی قدر و قیمت و منزلت سے لوگ غافل رہے ۔ بعض ان سے عقیدت رکھنےاور ادب پرور افراد نے ان کے کلام کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔شیخ غلام حسین سحر عمر بھر تمام آسائشوں سے دور رہےاورامیروں اور آمروں کے مراعات کو ٹھکراتے رہے۔ جب دنیا چھوڑ کر چلے گئے تو ان کے پاس نہ جائیداد تھی نہ بینک بیلنس تھا۔ ایک ڈائری چند کاغذ اور ایک پرانے کپڑےتھےلیکن بصیرت کی آنکھ کھول کر دیکھیں تو وہ  قوم و ملت کے لیےحقیقت و واقعیت میں علم و ادب، زبان و اور فکر کا سرمایہ اور خزانہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان کی تخلیقات اور فکرکو سمجھنے کی ضرورت ہے ان کی زندگی کے غیر معمولی پہلوؤں جن میں طرز زندگی ،طرز سفر اور لوگوں کے خیالات کو پڑھنا وغیرہ ہیں ان پرتحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ان کی حیات میں بلتستان یونیورسٹی  میں ایک باوقار پروگرام ہوا ان کے انتقال کے  بعد وی سی صاحب نے ایک باب کو ان سے منسوب کرنے کا اعلان کیا ہے اگرچہ یہ  عمل قابل ستائش ہے  لیکن اگر ایک ڈیپارٹمنٹ،بلاک کو ان کے نام سے منسوب کرنے کے علاوہ ان  فکر و شخصیت پر تحقیق کرنے کا اہتمام و اعلان کیا جائے تو ادب پروری کے ساتھ ان کی شخصیت کے ساتھ شاید انصاف بھی ہو۔

ہم ارباب اختیار اور حکمرانوں سے گزارش کرتے ہیں  کہ ایک کالج یا سکول کو ان کے نام سے منسوب کریں  تاکہ آنے والے نسل اس قادر الکلام صوفی شاعر کی شخصیت و فن سے آشنا رہے۔

خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را

2 thoughts on “آفتاب علم و ادب شاعر چہار زبان شیخ غلام حسین سحر مرحوم ہم سے بچھڑ گئے

  • August 28, 2022 at 2:31 pm
    Permalink

    ماشاءاللہ بہت خوب

  • August 28, 2022 at 10:53 pm
    Permalink

    ماشاءاللہ بہت خوب

Comments are closed.