ہر ایک سمت سیاہی کچھ اور چھانے لگی
نظموں میں مصوّری کرنے والے شاعر انورشمیم کے نام
ہر ایک سمت سیاہی کچھ اور چھانے لگی
کہیں کہیں سے مگر روشنی بھی آنے لگی
چراغ سارے بجھا کر بھی خوش نہیں ہے ہوا
سو اب وہ دل کے چراغوں کو آزمانے لگی
بلا رہی تھی جو مِنَّت سے اب وہی منزل
میں آ گیا تو نیا راستہ دکھانے لگی
ثمر پکے ہیں مگر ٹوٹ کر نہیں گرتے
نہ جانے کیسے شجر اب زمیں اگانے لگی
یہ کیسی آب و ہوا ہو گئی زمانے کی
کہ اب گلاب کی خوشبو سے چھینک آنے لگی
مجھے بھی ڈھنگ زمانے کے راس آنے لگے
مری اداسی بھی محفل میں مسکرانے لگی
مری غزل جو حجابوں میں منہ چھپاتی تھی
ادا و ناز سے اب محفلوں میں گانے لگی
بدل رہے ہیں جو حالات صورتیں عالم!
تو شاعری بھی نئے آئینے بنانے لگی
— عالم خورشید