!کنول ملک کی غزلیں

دل میں رکھوں گی یا نکالوں گی

آج سکہ کوئی اچھالوں گی

تم تو دریا کے ساتھ چل نکلے

میں اسی دشت سے نبھا لوں گی

تم نے آنے میں دیر کردی ہے

میں بھی رخت۔ سفر اٹھا لوں گی

پھول سب راہ میں بچھانے ہیں

ایک ترے لئے بچا لوں گی

اب یہ سوچا ہے موت آنے تک

تجھ سے اے زندگی نبھا لوں گی

میں تمہارے بغیر جی لوں گی

تم جو بولو! قسم اٹھا لوں گی

شعر لکھوں گی اب نئے سارے

میں نئے قافیے نکالوں گی

اب مرے پاس صرف آنسو ہیں

کام اشکوں ہی سے چلا لوں گی

تُو نے چھینی زمین پیروں سے

سر پہ میں آسماں اٹھالوں گی

میں نے صدمے اٹھائے دنیا کے

ایک تیرا بھی غم اٹھا لوں گی

چاند کو نوچ کر کنول اک دن

اپنی آغوش میں سلا لوں گی

—— 2 ——–

لہو رونا پڑا تو پھر

تمهیں کھونا پڑا تو پھر

ہے مشکل بےوفا ہونا

اگر ہونا پڑا تو پھر؟

تھکن سے چور ہیں آنکھیں

مجھے سونا پڑا تو پھر

کسی دشتِ طلب میں پھر

سفر بونا پڑا تو پھر

تمہارے ہجر کا پتھر

مجھے ڈھونا پڑا تو پھر

ابھی چاروں طرف ہو تم..

جدا ہونا پڑا تو پھر….

کنول جی بھر کے رو لوں گی

کہیں کونا پڑا تو پھر

—— 3———-

تم کیا جانو پیار محبت عشق نبھانا کیا ہوتا ھے

تم کیا جانو رستہ تکتے عمر بتانا کیا ہوتا ھے

مسجد مندر گرجا گھر میں اشک بہانا کیا ہوتا ھے

تم کیا جانو رات تہجد، ہاتھ اٹھانا کیا ہوتا ھے۔۔۔۔

سسی بن کر اھٹ اھٹ تم کو ڈھونڈا کرتی ہوں

تم کیا جانو صحرا صحرا گرد اڑانا کیا ہوتا ھے

خود کو مٹی مٹی کرکے آہیں، گریہ زاری شور

روٹھنے والے! تم کیا جانو یار منانا کیا ہوتا ھے

تم کیا جانو زخمی آنکھیں، خواب بکھر جانے کا دکھ

تم کیا جانو ہجر کے آنسو، درد اٹھانا کیا ہوتا ھے

جان سے پیارے! دے کر تم کو جان منالوں بولو بھی!

تم کیا جانو جان سے پیارے! جان سے جانا کیا ہوتا ھے

—————— 4 ————

ہجر کی تلخیاں سہوں گی نہیں

تب تم آو گے، جب میں ہوں گی نہیں؟

دل کی باتیں جو روک رکھی ہیں

یہ بھی طے ہے کبھی کہوں گی نہیں

بھیگی آنکھوں میں اشک ہوں گے بس

مسکراتی ہوئی ملوں گی نہیں

گر تمہیں بھولنے کا سوچ لیا

پھر تو اپنی بھی میں سنوں گی نہیں

میں نے جب فیصلہ سنایا تو

ڈٹ ہی جاوں گی پھر ہٹوں گی نہیں

میں بھی ضدی ہوں ایک نمبر کی

تم اگر نا ملے ، جیوں گی نہیں

آخری سانس تھام لی ہے کنول

اس کو دیکھے بنا مروں گی نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *