کسوٹی جدید کا دسواں ماہانہ ادبی اجلاس

گزشتہ اتوار کی خنک سہ پہر کو کسوٹی جدید کے ماہانہ ادبی اجلاسوں کے سلسلہ کا دسواں، اور جاریہ سال کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔

آغاز تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ پھر حنا عباس نے منقبت پیش کی ۔

بعد ازاں فرید انور صدیقی نے ” مزاحیہ اردو نثر کا ایک اجمالی جائزہ”۔کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے رتن ناتھ سرشار سے لے کر پطرس، رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائ، کرنل محمد خان، شفیق الرحمن، ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی تک ، یعنی ڈھائ سو سال کے عرصہ کے دوران سامنے آئے مزاحیہ و طنزیہ نثرنگاروں پر روشنی ڈالی۔

اعجاز شاہین نے “ہندی زبان کی پیدائش ” کے متنازعہ عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دیوناگری رسم الخط میں لکھی جانے والی مروجہ ہندی زبان کی بنیاد جان گلکرائسٹ نے فورٹ ولیم کالج میں ڈالی تھی ۔یہ انیسویں صدی کا زمانہ تھا۔ اس وقت تک اردو پورے ہندوستان کے عوام و خواص کی ایک مستحکم زبان بن چکی تھی اور نظم و نثر میں بہت کام ہو چکا تھا۔ اس لحاظ سے ہندی اردو کے مقابلے میں بہت کم عمر زبان ہے ۔

اس کے بعد ثروت زہرا زیدی نے ” باتوں سے خوشبو آئے ” کے عنوان سے ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کی شخصیت پر نہایت دلچسپ خاکہ پیش کیا۔( یہ ہم سب کے لئے اعزاز ہے کہ اس خاکہ کو پڑھ کر ڈاکٹر صاحبہ نے بتوسط ترنم احمد کلمات تحسین لکھ بھیجیے)

حنا عباس نے اپنی غزل تنقید کے لئے رکھی۔ جس پر حاضرین اجلاس نے سیر حاصل گفتگو کی اور تمام فنی اور فکری زاویوں سے اس کا جائزہ لیا۔ گفتگو کاما حصل یہ رہا کہ حنا عباس کا مطالعہ وسیع ہونے کی وجہ سے تخلیقی کینوس میں بھی بہت دسعت ہے۔ مضامین اور موضوعات میں تنوع ہے۔ چنانچہ وہ مشغلۂ شعر گوئ جاری رکھتی ہیں تو اردو کی غزلیہ شاعری میں اچھا اضافہ کریں گی

بچے ہوئے وقت میں شعر خوانی ہوئ۔ مسکان سید ریاض، مصطفی مانی، شبیر منور، نصر نعیم، محمد طہ، فرید انور صدیقی، ظہیر حسنین، ابرار عمر، اعجاز شاہین نے کلام پڑھا۔

اوپر لئے گئے ناموں کے علاوہ اجلاس میں جناب طاہر عباس، محترمہ تصویر فاطمہ، تابش زیدی، ماریہ آفتاب، سعدیہ طارق، منور احمد، کنور سلیم خان نے بھی شرکت کی۔

مسکان سید ریاض کی جانب سے پر تکلف ضیافت کے ساتھ اجلاس کا اختتام ہوا۔