!!ڈاکٹر ثمیر کبر کی غزلیں
رکھا تو ہے سنبھال کے پایا ہوا سا کچھ
لیکن ابھی بھی دل میں ہے کھویا ہوا سا کچھ
یہ کس دیار غیر میں ہے کارواں مرا
محسوس کر رہا ہوں میں بھٹکا ہوا سا کچھ
بیٹھا تو ہوں سمیٹ کے میں اپنے آپ کو
پر تیری رہگزر پہ ہوں بکھرا ہوا سا کچھ
کب تک سنبھال پاؤگے رشتوں کی ڈور کو
سلجھا ہوا سا کچھ ہے تو الجھا ہوا سا کچھ
خاموشیوں کی عادت بیجا ہے اسقدر
پتہ بھی کھڑکھڑائے تو دھڑکا ہوا سا کچھ
ہم نے تمارے نام پہ تحریر کر تو دی
سوچا ہوا سا کچھ ہے تو لکھا ہوا سا کچھ
انکھوں میں اشک آئے تھے ہم نے چھپا لئے
ہنستا ہوا سا کچھ ہے تو روتا ہوا سا کچھ
زلفوں کے اس حصار سے باہر نکل ثمیر
زلفوں کے اس حصار میں پھنستا ہوا سا کچھ
——– 2———
یوں تو اک سلسلہ سا رکھتا ہے
جانے کیوں فاصلہ سا رکھتا ہے
درد اک رابطہ سا رکھتا ہے
دیکھتا ہے مجھے وہ مڑ مڑ کر
یعنی ایک واسطہ سا رکھتا ہے
اس غزل کو سنائیں اپنی غزل
وہ بھی کچھ مرتبہ سا رکھتا ہے
بند کرتا ہےسارے دروازے
پھر نیا حوصلہ سا رکھتا ہے
——— 3 —–
پھر کسی درد نے لگائی صدا
شاید اس نے ہمارا پوچھا پتا
کون آۓ گا؟ کیا یہاں ہے رکھا
سر کو ٹکراتا ہوں، دوانہ ہوں
کون رہتا ہے ذہن و دل میں سدا
کوئی آواز کیوں نہیں دیتا
آپ کا شہر پتھروں والا
وہ مِرا نام کیوں نہیں لیتا
ہے میرا نام جبکہ اس کو پتا
اس سے پہلے کہاں مکمل تھا
تونے جب نام میرے ساتھ لکھا
——– 4 ——-
تو نہیں ہے تو کوئی غم بھی نہیں
بات اتنی سی ہے کہ ہم بھی نہیں
حوصلہ ضبط کا تو کم بھی نہیں
وقتِ رُخصت یہ آنکھ نم بھی نہیں
اے زمانہ! یہ تیرا تیرِ نظر
اور مجھ پہ کوئی کرم بھی نہیں
کیوں رہے یاد تیرے شعر ” ثمیر”
تیری باتوں میں کوئی دم بھی نہیں