!!!وبا کے دنوں میں جہاں گردی

وبا کے دنوں میں جہاں گردی

سفر نامہ: فاضل نقوی

جون کا مہینہ اور سورج کا غصہ اپنے عروج پر تھا۔ سوچا کیوں نہ اکتادینے والی گرمی سے کچھ لمحوں کے لیے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ راولپنڈی سے آئے ہوئے رشتہ دار اور یہاں موجود احباب نے مل کر منصوبہ بنایا کہ چوگلی کے موسم سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ چنانچہ 27مارچ کو قرعہ نکلا قافلہ چھبیس افراد پر مشتمل تھا۔ ایک کیری اور پانچ موٹر سائیل کارواں میں شامل تھے۔ دس بجے کے قریب تجمل نقوی صاحب کا فون آیا کہ تیار ہو کر آئیں۔ سستی طاری رہی اور کتابوں کو چھوڑنے کا دل نہیں کر رہا تھا لیکن پھر سوچا السفر وسیلۃ الظفر پھر برق رفتاری سے تیاری کی اور چل دیا۔ اڈے میں پہنچا ہی تھا کہ ہمارے شیخ صاحب موٹر سائیکل لے کر کھڑے تھے چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں تھے۔ خیر دل پر پتھر رکھ کر گیارہ بجے کے قریب ہم گاؤں سے نکل گے۔ کچھ دیر بعد لیسوا بائی پاس روڈ کے ساتھ چیک گے۔ آگے جاتے ہوئے “میرہ” کی پشت سے جب گزر ہوا تو دیکھا ہمارے بچپن میں جو چیہڑ کے درخت لگائے گئے تھے اب ایک خوبصورت جنگل کا روپ دھار چکے ہیں۔ جو درخت کشی کے اس دور میں معجزے سے کم نہیں۔ اتنے میں “کہوٹے” سے گزر رہا تھا تو بلگراں کالج کی عمارت پر نظر پڑی اور یکدم دل اداس ہوگیا۔ سوچا محفل ہستی ویران ہے اور ہماری نوجوان نسل اب سکول جانا بھول چکی ہے۔ کتابوں سے رابط منقطع ہو جس کے دیرپا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اب شاہ نواز بھائی سے مخاطب ہوا۔ آج ان کے چہرے پر بھی اداسی کے آثار نمایاں تھے۔ ویسے تو ان کی شخصیت انگریزی کی ایک اصطلاح “Playfull Charcter”کے مطابق ہے لیکن آج جلا ہے جسم جہاں بھی جل گیا ہوگا’ کا شائبہ واضح تھا۔ پھر ہم قاضی آباد پہنچے اور ماضی کی یادوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ مقامی لوگ جانتے ہوں گے ایک راکٹ بس زلزلے سے پہلے اس روٹ پر چلتی ہوتی تھی۔ سواریاں اس میں بٹھائی نہیں جاتی تھیں بل کہ ٹھونسی اور لادی جاتیں تھیں۔ قاضی آباد والی چڑھائی میں چھت کے اوپر سے سب سواریاں اتار کر پیدل مارچ کروایا جاتا تھا۔ بلکہ آخر میں خوب دوڑایا بھی جاتا تھا کیونکہ مسافروں نے بعد میں چلتی بس پر سوار ہونا ہوتا تھاپھر نوے کی دہائی کے گانے ایک سماں باندھ دیتے تھے ۔گانوں کےس ساتھ اناردانے کا سابقہ تو ماحول کو اور بھی گرم کر دیتا تھا۔ بس کے ڈرائیوڑ شاہ جی بڑے مشہور اور جہاندیدہ ڈرائیور تھے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔

بارہ بجے کے قریب ہمارا قافلہ یادگار پہنچ گیا۔ یہاں پر ایک یادگار تعمیر کی گئی تھی۔ یہ بھی زلزلے زدہ ہو کر ہماری غفلت کی نظر ہوچکی۔ اس جگہ سے بھی بہت یادیں وابستہ ہیں۔ نیڑیاں کے جنگل سے جب ہم لکڑیاں لے کر آتے تھے تو اس کے فرش پر کچھ دیر ہم سستاتے بھی تھے۔ یہ یادگار دراصل ان افراد کی یادتازہ کرنے کے لیے تعمیر کی گئی جو کہ لیسوا بائی پاس سڑک بناتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس سڑک کو 1992 سے پہلے بنانے کی کوشش کی گئی لیکن سنگلاخ پہاڑوں، چتیل آہنی پتھروں کے سامنے ہر بار مثبت نتائج برآمد نہ ہوئے۔ اس یادگار پر موسم کی شدت کا تذکرہ بھی ہے جو اب بالکل بھی باقی نہیں رہی۔ 1992 میں ایف ۔ڈبلیو۔ او کی ذیلی کمپنی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جو اس سے قبل کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔ مقامی افرد کے تعاون سے آخرکار یہ سڑک 1996ء میں مکمل ہوئی۔ اس کو بنانے کے دوران فوج کے کئی جوان اور کئی مقامی افراد موت کی اندھیری وادی میں چلے گئے۔ان کی یاد میں یہ یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ کسی زمانے میں یہ کھڑی ہوتی تھی اب بیٹھ چکی بلکہ لیٹ چکی ہے۔ مجھے لگتا ہے کچھ عرصے بعد اس یادگار کی یادگار تعمیر کی جائے گی۔

وہاں دیکھا قمر بھائی بھی اپنے قمر کے ساتھ موجود تھے۔ تجمل صاحب کا جمال دیکھنے لائق تھا۔ آج جواد کے اندازمیں جواد کی خصوصیات جھلک رہی تھیں۔ کیونکہ وہ نیا معرکہ سر کر کے آیا تھا۔ میصعم کی “چیج” نے ایک سامان فرحت و مسرت مہیا کر دیا تھا۔ تصاویر اتاریں گئی، یادگار کے پاس یادگار تصاویریں۔ کچھ دیر دم لینے کے بعد قافلہ پھر سے چل دیا۔ جوں جوں ہم اوپر جا ہرے تھے درجہ حرارت میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ اب ہمارے سامنے”نلیاں” کے خوب صورت سبزہ زار تھے گویا فرش زمرد ہے۔”ناڑ” کی آبشار تو گرمی کے اس موسم میں آنکھوں کو بہاتی تھی۔ حتیٰ کہ”حاجی ڈیٹ” پہنچ گئے۔جنگلوں سے لکڑیاں لانے والے ٹرک ڈرائیور اور بسوں کے ڈرائیور کے طعام و و قیام کا بندوبست یہاں ہوتا تھا جو اب قصہ پارینہ بن چکا  ہے۔ اب اجڑے دیار میں ہو کا عالم ہے۔ ماضی بار بار ہمارا تعاقب کر رہا تھا۔ تو ہم ماضی کی سوچوں میں گم “باٹے پجے” پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر رکے اور محوِ نظارہ ہوگے۔ دیولیاں سےاوپر سڑک ایسے نظر آئی گویا سلیقے سے زنجیر بچھائی ہوئی ہے۔ دریائے نیلم پر سورج کی روشنی پڑتی جو سورج نما نظر آتیں تھیں۔ بل کھاتا ہوا یہ دریا آج خوب بہہ رہا ہے جو کہ سردیوں میں لپٹ جاتا ہے۔ سامنے نیچے ڈھیری تھی جس کے ارد گرد سڑک کا دائرہ اس کو قید میں لیے نظر آیا تھا۔ ڈھیری کے اوپر چیدہ چیدہ درخت ابن آدم کی کارستانی کا ثبوت تھے کیونکہ کسی زمانے میں یہاں اچھے خاصے درخت تھے۔ ہماری پشت پر دیوہیکل  “تنگاںمالی” اپنی پر شکوہ ہئیت کے ساتھ کھڑی تھی جو سطح سمندر سے تقریباََ گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ اب ہمارے اندر وسعت نظارہ موجود ہے کہ ہم دور دور سبزے کی چادر اوڑھے پہاڑوں، سبزہ زاروں اور گھنے جنگلوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ پھر آگے چل دیے اگلا  پڑاؤ”بن تلاں” تھا جہا پر کبھی تین گلیشئر ہوا کرتے تھے اور اب وہ مٹی، کنکر اور پتھر نظر آتے ہیں، شاید اب برف حقیقت سے زیادہ افواؤں اور خبروں اور افسانوں میں پڑتی ہے ۔ یہاں پر مستعجاب کا ہر بات پر استجاب دیکھنے لائق تھا۔ آصف بھائی کی پھلجڑیاںساتھ ان کا  فرطِ طرف سے جھومناگویا یہ اس علاقے کے آصف  الدولہ ہیں۔ یہاں نیچے نالے میں نظر پڑی تو آبشار کے نظارے نے ہمیں علامہ اقبال کی ہمالہ کی منظر نگاری یاد دلا دی۔ کچھ دیر قیام اور بنا طعام کے ہم آگے چل دیے۔ جوں ہی نیڑیاں میں داخل ہوئے تو یخ بستہ ہواؤں نے جگر کو ٹھنڈک آنکھوں کو طمانیت اور جسم کو فرحت بخش دی۔آگے چلتے ہوئے دیہاتی مٹیارنوں کے نظارے شاہ نواز بھائی کے ان میں پوشیدہ چنچل پن کو بیدار کر دیا۔ درجہ حرارت میں تبدیلی نے اب ان کو تھوڑا تبدیل کر دیا تھا۔ اب ہم جمعہ گلی پہنچ چکے تھے۔ جمعہ تو بہت تلاش و بسیار کے باوجود نہیں ملا ہاں گلی ضرورنظر آئی۔ فیض نے ایک جگہ لکھا کہ”میرے معصوم قاتل “آگے جو علاقہ تھا  اس پر بھی خوفناک اور خطرناک خوبصورتی کا بیک وقت اطلاق ہوتا تھا۔ ہماری آنکھوں کے بالکل سامنے “چنج پہاڑی” تھی۔ اس کو دیکھتے ہی میں اس کی تاریخی اہمیت کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اہرام مصر کی طرح مثلت کی شکل میں یہ پہاڑی ضلع مظفرآباد کے لیے دفاعی دیوار کا کام کرتی ہے۔ اس پہاڑی اور علاقے کو کرنل کمال صاحب نے کمال خوبی سے آزاد کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ 1948ء میں کرنل کمال صاحب مقامی بندوں کی مدد سے براستہ کیلگراں کے کھٹے سے اس پہاری پر پہنچے جو سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ یہاں پر کرنل کمال کی یاد میں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جو اب خستہ حالی کا شکا رہے ۔ کرنل کمال صاحب نے اس دور میں وہاں پر موٹر سائیل کا انجن چلایا اس آواز سے دشمن کو خوف زردہ کر دیا انھیں گمان ہوا کہ بہت بڑا توپ خانہ چنج پہاری پر پہنچ چکا ہے۔ تمام دشمن افواج قرب و جوار کے علاقوں کو چھور کر فرار ہوگئیں کئی نے دریا میں چھلانگیں لگائی اور کچھ دانے ہی پار ٹیٹوال پہنچے۔ اسی تاریخی حیثیت کے پیش نظر 1998ء میں بینظیر بھٹوصاحبہ نے یہاں آنا تھا اور اس کے لیے خوب  تیاریاں ہوئیں۔ہیلی کے لیے چھوٹا سا میدان اور باقی مبادیات مہیا کی گئیں جن کی اب باقیات ہی ہیں لیکن بینظیر بھٹو صاحبہ یہاں نہ آ سکیں۔ یکدم میری نظر منھ کھولے ہوئے پہاڑوں پر پڑی اور میں شعور کی دنیا میں آگیا۔ “رچھ مار” میں جانور تو کم مرے لیکن انسان زیادہ مرتے رہے۔پھر نہ جانے اس جگہ کا نام ایک جانور کے نام پر کیوں رکھا گیا ہے۔ اوپر آسمان اور نیچے گہری کھائی نے خوف میں مبتلا کردیا ۔میں نےاپنی توجہ عناصر فطرت پر مبذول کرنے کی سعی کی۔ یہاں ایک بکری  سڑک کے درمیان کھڑی تھی جس نے اٹھکیلیاں کرنا شروع کر دیں۔ شاید شاہ نواز بھائی کی شکل میں ایک چنچل ہمجولی اس کو نظر آگیا۔ تھوڑا آگے گئے تو پہاڑوں کے درمیان سبزہ زار دیکھا تو ویرانے میں چپکے سے بہار آنے والے مصرعے پر بھی یقین ہوگیا۔ اب ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہونے والے ہیں۔ چنج پہاڑی کے ساتھ والی گلی تو گویا دروازہ بہشت ہے صرف رضواں کی کمی ہے۔ یہ گلی دو دنیاؤں کی تقسیم ہے۔ ایک جس میں ہم موجود ہیں عالمگیریت  اور دوسرے ماقبل عالمگیریت ۔یہاں ہم کچھ دیر کے لیے رکے کیونکہ یہاں سے آگے ہمارا رابطہ بیرونی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ تجمل بھائی نے وزارت داخلہ کو مطلع کیا او مجھے بھی فرض یاد آگیا کیوں نہ ابو کو آگاہ کر دوں۔ میں نے بھی ان کے پاؤں پر پاؤں  رکھا اور ابوسے بات کر لی۔ اب سب آگے جانے کے لیے تیار ہوگئے کھجوریں کھا ئیں  لیکن اونٹ کے””پیٹ”” زیرہ،کیونکہ کھانے کی طلب پیٹ ہی کو تھی۔ اب ایک ہم نئی دنیا میں داخل ہوگے۔ جس کا نام چوگلی ہے.

نئی دنیا میں داخل ہوئے توایک بج چکے تھا اور ہم نے آگے کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ اب ہمارا رابطہ دنیا سے کٹ گیا تھا۔ موسم معتدل تھا بہت زیادہ سردی نہیں تھی جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے 2003ء میں جب کلاس سوم کا طالب علم تھا چوگلی گیا ، تب جمعہ گلی سے آگے مجھے شدید سردی محسوس ہوئی تھی اور میں نے جرسی پہنی تھی اس کے بعد آج رات کو ادھر دوسری بار رہنا تھا۔ اس لیے میں نے ساتھ گرم کپڑے رکھے تھے لیکن گلوبل وارمنگ اور انسان کی جنگل کش پالیسیوں نے اتنا فرق ڈال دیا کہ مجھے ان کپڑوں کی ضرورت نہیں پڑی۔ اب ہمارا ذہن بالکل ایک نئی دنیا میں تھاآگے جا کر دیکھا تو سڑک بند تھی۔ تھوڑا پریشان ہوگیا۔ گاڑی اور موٹر سائیکل ادھر ہی کھڑے کیے اور تدبیر کاری شروع ہوگئی کہ کیسے اس جگہ کو پار کیا جائے۔ تجمل بھائی میں چھپا کوہکن بیدار ہوا اور انھوں نے کدال کا بندوبست کیا۔ کدال کے ذریعے پیدل چلنے کاراستہ بنایا جو کہ پل صراط سے کم نہ تھا۔ میں نے کہا” راستہ مشکل ہے“ تصدق چاچا نے کہا ”یہاں سے اب گدھا بھی پار جاسکتا ہے“۔ میں نے جواب دیا” ہاں گدھا تو جا سکتا ہے لیکن آج کا انسان نہیں“۔ خیر اللہ اللہ کر کے مٹی کے تودے کو پار کیا۔ ہمارے ہمراہ بنتِ حوا کی خاصی تعداد تھی چوگلی کی خوبصورتی دیکھ کر ان کی وہی حالت تھی جس طرح شادی کے موقع پر دسترخوان کھلنے کی کیفیت ہوتی ہے۔ فضائی اور زمینی آلودگی بالکل نہ تھی لیکن شور کی آلودگی تھی آگے ہم نے راستہ اپنے قدموں کے ذریعے ماپنے کا فیصلہ کیا۔ کھانے پینے کا ضروری سامان لیا اور چل دیے۔ دو بجے کے قریب ہم چوگلی سے گزرگئے۔ اب ہم گھنے جنگل میں داخل ہوچکے تھے۔ اگے چھوٹا سا نالہ تھا وہاں پر ہم نے ڈیرے ڈالے لیے۔  آج مظفرآباد اور بلگراں کی حبس کے مقابلے میں گویا جنت میں تھے۔ ہمارے دویارِغار روٹیاں لینے چلے گئے۔ ہم گھاس کے میدان کی تلاش میں نکل گئے تا کہ خوب اچھل کود ہوسکے۔ کچھ فرلانگ آگے جانے کے بعد مطلوبہ جگہ مل گئی اور میں واپس اپنے ساتھیوں کو مطلع کرنے آیا۔ پھر کیا تھا چمن میں گویا بہار آگئی۔ بچوں کا کھیلنا اور کودنا، خواتین کی تصویر کاریاں، مردوں کی فن کاریوں نے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کر دیا۔ اب جوں جوں بھوک بڑھتی گئی تو ساری شہنایاں انتظار طعام میں بدل گئیں۔ ہم نے بھی تصویر کاری کے جوہر دکھانے کی سعی کی لیکن ان رموزسے ہم بالکل نابلد اور لوگوں کی نظر میں بے بہرے ٹھہرے میں تنہائی میں چلا گیا۔ لمبی سانسیں لیں، جنگل کی جڑیوں خوشبو طرازی، درختوں کی سائیں سائیں کی آواز، پھولوں کی خوشبو اور گھاس کی باس کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کی۔ ہمارے ساتھ کچھ بچے بھی تھے، ساتھی بھی جو پیٹ کے معاملے میں کچے تھے۔ کھانے کے انتظار میں درخت گننے لگے۔ پھر باہم مشورہ ہوا کہ آگے چل کر دیکھتے ہیں ۔ تو ہم نے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ اتنے میں دو احباب کھانا لے کر پہنچ گئے۔ جب کھانا  پہنچا تو سب کی کیفیت ایسی تھی کہ “بیمار کو بے وجہ قرار آجائے” سب لوگ چپاتیوں پر ٹوٹ پڑے گویا گنج قارون ہاتھ آگیا۔ خیر ہم نے تو سب سے زیادہ ہاتھ صاف کیا اور خوب پیٹ پر جبر کیا ،جس کے اثرات بڑے بھیانک اور دیرپا ثابت ہوئے۔ جب سب کھانے سے سیر ہوگے تو ہم نے مزید سیر کرنے کافیصلہ کر لیا۔ اب چوگلی کے مرکزی علاقے کو دیکھنےکا منصوبہ بنایا۔ واپسی پر بازار کی طرف آئے ۔راستے میں واپسی پر بنتِ حوا کی ہنرکاریاں اور تصویرکاریاں ہمارے دل میں گلکاریاں پیدا کررہیں تھیں۔ہر کوئی اپنے موبائل کے اچھا ہونے کا رعب جما رہا تھا۔ ہمارے حلیے  اور موبائل کے حلیے میں فرق کم ہی ہے۔جس پر ایم ۔اےاردو کے دوران خاصے طنز  بھی برداشت کیے۔

رات کے قیام و طعام کا بندوست تصور کیانی صاحب کے گھر  کیا گیا تھا۔سب منزل مقصود کی جانب چل دیے۔بازار سے ضروری سامان لیا۔ یہاں ایک چیز دیکھنے کو ملی کے خودساختہ مہنگائی نہ تھی جو ہمارے کشمیر کے بازاروں کا خاصا ہے۔ پھر ہم بھی ڈھلتے سورج کے ساتھ”جڑوں والے پانی“ کی طرف چلنے لگے ۔ہمارے سامنے لیپہ کا ہمالہ “شمس بری” پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑا تھا۔ پہاڑوں کا ایسا سلسلہ کشمیر میں کئی جگہوں پر ہمیں دکھا ئی دیتے ہیں۔ برف پر پڑتی سورج کی کرنوں نے پہاڑ کو چراغاں نما بنا دیا تھا۔ بلوط کے درختوں کےسائے مزید بڑھ رہے تھے۔ درجہ حرارت میں خوشگوار تبدیلی آرہی تھی۔ اب ہم اپنے بسیرے کی طرف چل دیے۔ یہ جگہ چوگلی سڑک کے اگلی طرف ہے۔اس کے ساتھ ایک قبرستان اور اگلی طرف سبزے کے قالین نے  زمین کو فرشِ زمرد بنا دیا ہے۔ لیکن جن لہلاتی فصلوں کو دیکھ کر کسان تمام کشت بھول جاتا تھا آج وہ کھیت ابنِ آدم کی تن آسانی کا ثبوت دے رہے تھے۔ہم نے سوچا کہ معاشرہ کس ڈگر پر چڑھ چکا ہے کہ ہم پڑھ لکھ کر کارِ سرکار میں ایسے محو ہوجاتے ہیں کہ اپنی زمینوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ اگر اسی طرح رہا تو ہماری زمینیں بنجر ہوجائیں گی اور ہم منڈیوں میں پیسہ لیے پھرے  لیکن اجناس نہیں ملے گاکہ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔جس مکان میں شب بسر کرنی تھی یہ دومنزلہ تھا۔ دیواریں مٹی سے لیپ تھی جن سے بھینی خوشبو نے ناک بنانے والوں کو بھی ناک درست سمت رکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔یہاں کا نظامِ زندگی ہمیں بیسویں صدی میں واپس لا کھڑا کر دیتا ہے۔ وہاں شام کی چائے کے  لیےدیسی دودھ نہ ملا۔باقی جو کچھ ملا اگر وہ دودھ ہوتا تو کشمیر کےاس کونے میں کب آتا۔پھر اس دودھ نما ملغوبے سے تیار چائے کا دور چلا۔ ہم نے بھی پی اور خوب مزے لے کر کیونکہ کے جنگل میں یہ بھی غنیمت معلوم ہوتی تھی۔ ہم رکابوں نے اوردور بھی چلائے لیکن ہم اس گلزار ہست بود میں بیگانہ وار ہی رہے۔ سبزے کی اس قالین پر بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ مقامی نوجوان اور تصور بھائی آ گے۔انہوں نے بتایا کہ”گذشتہ تین سالوں میں چوگلی سے چھتیس سو درخت کاٹے گے“۔یہ کارستانی آنکھوں کو نظر بھی آتی تھی لیکن ہم تو سال میں ایک دن کے لیے جاتے ہیں وہ بھی صرف موسم کا مزہ لینے اور اپنے آپ کو فطرت کو قریب لے جانے لے لیے ، ہمیں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔کچھ دیر بعد ہم مکان میں آگے جہاں کھانا تیار تھا۔ دستراں بچھا اور ہم نے چکن پلاؤ کے ساتھ وہی سلوک کیا جو افسانہ ”کفن“ کے گھیسو اور مادھو کھیتوں سے چرائے گے آلوؤں کے ساتھ کرتے تھے۔ مرغ پلاؤ بہت محنت سے پکا تھا اور ہم نے چٹخارے لے کر کھایا۔ تادم تحریر اس کا ذائقہ محسوس  ہورہا ہے۔ کھانے کے بعد احباب لڈو کھیلنے کا فیصلہ کیا اور ہم نے سونے کا فیصلہ کیا مجھے تو اس شیطانی کھیل سے چڑ ہے ۔ لڈو ایک ایسا کھیل ہے جو کھلاڑیوں سے زیادہ تماشائی کھیلتے  ہیں۔کوشش اور جبر کے باوجود نیند نہ آئی اور خدا خدا کرتے وقت کاٹا۔ اس کھیل کی ایک خوبی ہے کہ تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک جھگڑا نہ ہو۔ جھگڑے کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔ آخرکار روایتی انداز میں دو بجے کے قریب میدان کارزار گرم ہوا اور ہم سجدہ ریز ہوئے۔ لڈو اٹھا کر پھینک دی گئی اور سوشل میڈیا کا جملہ”نہ ڈھولا ہوسی نہ رولا ہوسی “ پتھر پر لکھی تحریر ثابت ہوئی۔ گولہ باری کے بعد دونوں مورچوں کی توپیں خاموش ہوگئیں ۔پھر نہ جانے کب آنکھ لگ گئ۔ صبح پانچ بچے کے قریب آنکھ کھل گئی۔یہاں سورج سامنے سے طلوع ہوتا ہے اس لیے روشنی بہت جلدی تیز ہوجاتی ہے۔ پھر ناشتے کا انتظار ہونے گا۔ ناشتے کیا تھا بلکہ ”بہشتی مرغی“ تھی، سب نےخوب جم کر ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد قافلہ سالاروں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ دس بجے کے قریب وہاں سے نکلے تو راستے میں زیادہ تر لوگوں کو مورچوں کی تعمیر کرتے ہوئے دیکھا۔ خوف وہراس نے ان کے چہروں پر پژمردگی طاری کی ہوئی تھی۔ آج سعادت حسن منٹو کا افسانہ”ٹیٹوال کا کتا“ اپنی پوری معنویت کے ساتھ مجھ پر ظاہر ہوا۔ ہم آگےچلتےہوئے ہو گلی میں پہنچے تو لگا واپس اکیسویں صدی میں آگے۔ یہاں پر لوگوں کا خوب رش تھا۔ یہاں موبائل سروس کی سہولت موجود ہے اس لیے چوگلی کے لوگ اپنوں کا پتا کرنے اسی جگہ کا رخ کرے ہیں۔ یہاں ہی پہنچ کر دنیا سے رابطہ ممکن ہے۔ ویسے اکیسویں صدی میں ان لوگوں کے پاس اس سہولت  کا نہ ہونا استحصال اور عدم توازن کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہاں پہنچ کر گاڑی والے کو فون کیا تو پتہ لگا کہ صاحب بہادر ابھی تک گھر سے نہیں نکلے۔ تو فیصلہ ہوا جب تک گاڑی نہیں آتی ہم پیدل چلتے ہیں جہاں گاڑی مل گئی وہاں سوار ہو جائیں گے۔ پھر موٹرسائیکلوں کے ذریعے سب درویشوں کو باری باری  جمعہ گلی پہنچایا گیا اور آخرمیں ہم اکیلے رہ گےپھر شاہ نواز بھائی ہمیں لینے آئے کیونکہ ان کے علاوہ ہمیں بٹھانے کی جرات کوئی نہیں کرتا۔ جب ہم جمعہ گلی پہنچے تصدق چاچوکو رشتہ دار مل گئے۔وہ آدھے سے زیادہ قافلے کو لے کر ان کے گھر چلے گئے گھر والوں کی کیفیت وہی ہوئی ہوگی “مجھے میرے رشتہ داروں سے بچاؤ” خیر وہاں چائے کا دور چلا اور لڈو کا میدان سڑک کے درمیان سج گیا۔ اب کی بار ہم بھی اعصاب پر قابو نہ رکھ سکے اور کھیلنا شروع کر دیا۔ نتائج سامنے آنے سے قبل ہی گاڑی آگئی۔ گاڑی میں ساتھیوں کو بٹھا کر ہم اور شانی بھائی عازمِ سفر ہوئے۔ جوں جوں نیچے وادی میں اترتے گئے حبس زیادہ سے زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ ایک بجے کے قریب ہم گھر پہنچ گئے۔”پہنچی وہاں ہی پر خاک جہاں کا خمیر تھا”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *