!!واجد حسین ‘ساحل ‘ کی غزلیں

منتر آنکھوں سے پڑھ گئی جاناں

بے پیے مجھکو چڑھ گئی جاناں

حال اپنا  بھی، “قیش” جیسا ہے

اب تو داڑھی بھی بڑھ گئی جاناں

دل کا رستہ  تُجھے  دکھایا تھا

تُو تو ماتھے پہ چڑھ گئی جاناں

جرم کر کے تو اپنی آنکھوں سے

دل پہ الزام  مڈھ  گئی  جاناں

داغ پہلے ہی کم نہ تھے دل کے

زخم اک اور  جڑھ گئی جاناں

جب نظر سے نظر ملی “ساحل”

دل کے سب راز پڑھ گئی جاناں

—— — 2 ———-

کوئی منزل،کوئی منزل کے گماں تک پہنچے

جنکی پرواز ہے جتنی, وہ وہاں تک پہنچے

یہ بھی کیا عشق میں کم ہے کہ یہاں تک پہنچے

ہم جو محبوب کے قدموں کے نشاں تک پہنچے

میں تو پہنچا، وہاں لمہوں میں، کرم ہے اُسکا

لوگ برسوں کا سفر کرکے جہاں تک پہنچے

آپ کیا خاک  لگائیں گے  پتہ  قاتل  کا

تیر نظروں کے تھے ، پر آپ کماں تک پہنچے

کوئی انکی بھی تو رفتار کا عالم دیکھے

جو درے یار پہ پہنچے، وہ کہاں تک پہنچے

مجھکو جب موت بلائے گی تو یوں جاؤں گا

جیسے بچّہ کوئی روتا ہوا   ماں تک  پہنچے

علم وہ گل ہے جو نسلوں کو معطر کر دے

اسکی خوشبو جو کتابوں سے زماں تک پہنچے

ایک مدّت کی ریاضت کا صلہ ہے “ساحل”

میرے اشعار جو لوگوں کی زباں تک پہنچے

———- 3 ———-

بلاتی  رہ  گئی  دُنیا  مگر  گیا  تو  نہیں

بچھڑ کے تُجھ سے کسی کا بھی میں ہوا تو نہیں

بہت دنوں سے طبیعت ملول ہے تیری

کہیں یہ عشق کا وہ مرض لا دوا تو نہیں

یہ کون دل میں, سدا چینکھتا ہی رہتا ہے

کہیں یہ عاشقِ ناکام کی صدا  تو نہیں

خیال, ہجر میں ایسے بھی مجھ پے گزرے ہیں

وصال یار  کہیں  عشق  کی,  فنا  تو  نہیں

نہ دل کو خاک ابھی جان نظر ثانی کر

کے راکھ میں کوئی شولا دبا ہوا تو نہیں

میں اتنا ہجر سے مانوس ہوں کے لگتا ہے

جو وصل یار کا طالب ہو بے وفا تو نہیں

میں اپنے دم پے اندھیروں سے جنگ جیتا ہوں

چراغِ شب ہوں میں لیکن  ابھی  بُجھا تو نہیں

ملیں گے  مجنو و فرہاد  ہر  گلی  میں مگر

دیوانہ مجھ سا جہاں میں کوئی ہوا تو نہیں

مزا بھی لمس کا آنکھوں سے ہی کیا محسوس

کہ میں نے خواب میں بھی یار کو چُھوا تو نہیں

تمہارے دل پہ جو لکھّا ہے نام ‘ساحل’ کا

مٹانا  تم نے بھی  چاہا  مگر  مٹا تو نہیں

—— 4 ——-

وقتِ فُرصت جو کتابوں میں سفر کرتا ہوں

میں تخیّل کے سحابوں میں سفر کرتا ہوں

جب بھی اُن مست نگاہوں میں سفر کرتا ہوں

ایسا  لگتا  ہے  شرابوں میں  سفر  کرتا  ہوں

رُوبرُو  آ کے  تو ،  رہتا ہی   نہیں  قابو  میں

اس لیے میں ترے خوابوں میں سفر کرتا ہوں

بارہا رُخ سے  ہٹاتے ہوئے  زلفیں جاناں

سحر انگیز حجابوں میں سفر کرتا ہوں

خود سے ہی چھیڑ دیا کرتا ہوں باتیں تیری

اور پھر خود ہی عقابوں میں سفر کرتا ہوں

بے شعوری  کی  سند ہے  تیرا  چبھتا  لہجہ

میں تو شاعر ہوں گلابوں میں سفر کرتا ہوں

کہیں مجنوں,کہیں رانجھا، کہیں ‘ساحل’ بنکر

میں محبّت  کے  نصابوں میں  سفر  کرتا  ہوں

——– 5 ——

خوشامد کر کے یاں لایا گیا ہوں

مگر محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

اچانک چھوڑ کر یوں بزمِ جاناں

نہیں  آیا،  مگر  لایا  گیا  ہوں

فرشتہ ہوں نہ کوئی پارسا ہوں

میں آدم ہوں جو بہکایا گیا ہوں

میں ہوں اِک خواب پر  اتنا بتا دے

تِری آنکھوں میں کیوں پایا گیا ہوں

دکھاکر چاند میں چہرہ تمہارا

کسی بچّے سا  بہلایا  گیا ہوں

مسلسل  ہچکیاں آنے  لگی ہے

تو کیا میں یاد فرمایا گیا ہوں

مسافر تھا، سرائے دل میں تیرے

فقط کچھ دن ہی تو آیا گیا ہوں

توقع یوں تو اُن سے کچھ نہیں تھی

بھروسہ  دے  کے  بھرمایا  گیا  ہوں

وصال یار ہے ‘ساحل’ قضا تو 

ملائک بھیج  بلوایا گیا ہوں

——— 6 ——

دن ہی کٹتا نہیں پھر رات کی پہنائی ہے

یہ سلاسل مجھے کس بات کی پہنائی ہے

خالی ذہنوں میں کتابوں کی شعائیں بھر کر

روشنی  اک نئے  جذبات  کی  پہنائی  ہے

ماہِ کامل کو اماوس میں مبدل کر کے

کس نے چادر شبِ ظلمات کی پہنائی ہے

حاکم وقت نہ اترا کہ یہ توقیر تجھے

تیری تقدیر نے خیرات کی پہنائی ہے

اب کلہاڑی سے کرے بھی تو شجر کیا شکوہ

ضرب تو  اپنے ہی  ہم ذات  کی  پہنائی  ہے

پہلے دشمن کی طرح زخم دیے پے در پے

پھر ضِماد اس نے مصا فات کی پہنائی ہے

—————7

اگر دل پہ یادوں کی برسات ہوگی

تو بنجر  زمیں میں  نباتات ہوگی

لبِ دشمناں پر بھی ہیہات ہوگی

میں گر بچ گیا تو بڑی بات ہوگی

ابھی اُس نے جُوڑے سے کھولی ہے زلفیں

ابھی  بس  ذرا دیر  میں  رات  ہوگی

جواب اُن کا لایا ہوں کہتا ہے قاصد

یہ دشمن کی کوئی خرافات ہوگی

کہاں اصل میں، وصل ممکن ہمارا

چلو خواب میں واں ملاقات ہوگی

جدائی سے اُلفت میں سُوکھا پڑےگا

نہ بادل گھرینگے نہ برسات ہوگی

طلب جیت کی ہے تو پھر طرز بدلو

جو چالیں نہ بدلی تو پھر مات ہوگی

میں گردن جھکانے کا آدی نہیں ہوں

برابر  میں  آؤ  تبھی  بات  ہوگی

نکاح ہونے لگ جائیں گر سادگی سے

نہ دیگیں  چڑھیگی,  نہ بارات  ہوگی

چلو چل کے ساحل بزرگوں میں بیٹھیں

پرانے  دنوں  پر  نئی  بات  ہوگی

———————-

نام: واجد حسین 

تخلص: “ساحل”

یومِ پیدائش: ۸ اگست ۱۹۸۸

مقام :سیندھوا ضلع بڈوانی

(مدھیہ پردیش)