نظم کا عنوان : نوحہ زندگی
نظم کا عنوان : نوحہ زندگی
شاعر کا نام : عمار نعیمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مردم بیزار ہوگیا ہوں میں
کسی درخت کی گود میں
سر رکھ کے رونا چاہتا ہوں
کہ جس کی ٹہنیاں
میرا خالی پن دیکھ کر
میرے سر پر دستِ شفقت رکھ دیں
انسانی غلاظت : تھوک ، نزلہ ، پیشاب
اور پان کی پیک سے
مسخ شدہ دیوار کے چہرے کا
رنج سن کر جی چاہتا ہے
اس کے ماتم کا حصہ بنوں
جنگل کے جانوروں کو
خوب سیرت انسانوں کی
منافقت کے قصے سناؤں
سرمایہ دارانہ نظام کے خنجر سے
ٹپکتے ہوئے لہو کی مہین آواز
جس سے جسم میں
جھرجھری پیدا ہو جاتی ہے
وہ جانوروں کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں
غالب گمان ہے کہ میں
ہرن اور شیر کی صلح کروا کر
ایک ہی جھیل سے پانی پلا دوں
سمندروں کا پانی میٹھا کر دوں
فضائی آلودگی کے دکھ میں مبتلا
زار و قطار رونے والے
پہاڑوں کی فریاد سنوں
میں پرندوں کے ساتھ
انھی کے دستر خوان پر بیٹھ کر
آنے والے کل سے بے پرواہ ہو کر
صرف آج میں جینا چاہتا ہوں
میں حال میں جینا چاہتا ہؤں