!!نظم : وقت کی مختلف طوالتیں

نظم : وقت کی مختلف طوالتیں

شاعر : برائن پیٹن

اردو ترجمہ : رومانیہ نور

انسان آخر کتنی عمر جیتا ہے ؟

ایک ہزار دن یا محض ایک دن ؟

ایک ہفتہ یا پھر چند صدیاں ؟

کتنی عمر گزارتا ہے انسان جینے اور مرنے کے دوران

اور ہمارا کیا مطلب ہے یہ کہنے سے کہ وہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا ؟

ِاِنہیں پیش گمانیوں میں الجھے ہم وضاحتیں ڈھونڈتے ہیں.

ہم فلسفیوں کا در کھٹکٹا سکتے ہیں

مگر وہ ہمارے سوالوں سے اکتا جائیں گے.

ہم پادریوں اور رِبیوں کے دوارے جا سکتے ہیں

مگر شاید وہ مصروف ِ انتظام ہو جائیں.

تو آخر انسان کب تک زندہ رہتا ہے؟

اور جیتے جی کتنا جیتا ہے؟

ہم جھنجھلا کر کئی سوال پوچھتے ہیں

تب جب جواب سوجھتا ہے تو بہت ہی سادہ ہوتا ہے.

ایک انسان تب تک زندہ رہتا ہے

جب تک اسے زمین ِ دل پر بٹھائے رکھیں ،

جب تک اس کی فصل ِ خواب اٹھائے رکھیں،

اس لیے وہ ہمارے جینے تک( ہم میں) زندہ رہتا ہے ،

مشترک یادوں کو سنبھالے، ایک انسان زندہ رہتا ہے ۔

اس کا محب اپنے محبوب کی خوشبو ، اس کا لمس خود میں سمائے گا ،

اس کے بچے اس کا بار ِ محبت اٹھائیں گے ،

ایک دوست اس کی باتیں دہرائے گا ،

دوسرا دوست اس کی پسندیدہ دھن گنگنائے گا،

کوئی اور ہم نشیں اس کی ہیبت سے حصہ بٹائے گا۔

مضمحل چہروں کے ساتھ دن گزرتے جائیں گے

پہلے ہفتے ، پھر مہینے،

پھر ایک دن آئے گا اور کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا،

غم کی گرہیں ڈھیلی پڑ جائیں گی

اور آشفتہ حالوں کو قرار آ جائے گا۔

اس دن وہ فراموش نہیں ہو گا

مگر موت کے ہاتھوں جدا ہو جائے گا

فنا ہو جائے گا۔

انسان آخر کتنی عمر جیتا ہے؟

ایک انسان وقت کی مختلف طوالتیں جیتا ہے