!!!ناول روم کی باتیں

🔴شکیل رشید ممبئی (روز نامہ اردو نیوز)

چند روز قبل معروف فکشن نگار خالد جاوید دہلی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر کناڈا کی خاتون ناول نگار ایما ڈونوگ ہیوے ر اقتباس شیئر کیا تھا، اسے پڑھ کر ناول کی ساری کہانی ذہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح دوڑ گئی کہ ناول چند روز پہلے ہی پڑھ کر ختم کیا تھا۔ یہ ناول 2010 میں بکر ایوارڈ کے لیے منتخب ناولوں کی شارٹ لسٹ میں شامل تھا۔ اسے کئی ایوارڈ ملے ہیں۔ اس ناول پر 2015 میں ایک فلم بھی بنی ہے جس کی اداکارہ بِری لارسن کو اکیڈمی کا بہترین اداکاری کا ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔ ناول نگار اب تک تیرہ ناول لکھ چکی ہیں اور کہانیوں کے پانچ مجموعے شائع کرا چکی ہیں۔ ناول ایک پانچ سال کے بچے جیک کی روداد ہے، اور قاری ناول کے مناظر اسی پانچ سالہ بچے کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ قارئین ناول کی فضا، منظر اور مکالمے پانچ سالہ بچے کی آنکھ سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ایک گیارہ بائی گیارہ فٹ کا کمرہ اس بچے کی کل دنیا ہے۔ اس کمرے میں وہ اپنی ماں کے ساتھ، جسے وہ Ma کہتا ہے اپنی پیدائش سے لےکر پانچ سال ہونے تک رہ رہا ہے۔ کمرے میں ایک ٹی وی ہے، اس کے لیے ٹی وی کی دنیا اصلی دنیا نہیں ہے لیکن وہ ٹی وی کے کارٹونوں کے کردار کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ کمرے کی چیزیں دیوار، قالین وغیرہ اس کی نظر میں حقیقی ہیں۔ یہ بچہ اور اس کی ماں کیوں اس کمرے میں بند ہیں؟ اور رات گیے اکثر کمرے میں آنے والا شخص جسے وہ اولڈ نِک کہتے ہیں، کون ہے؟ یہ سوال قاری کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں لیکن ان کا جواب ناول میں آگے جا کر ملتا ہے۔ یہ چھبیس سالہ ماں کوئی سات سال قبل اغوا کر لی گئی ہے اور اغوا کرنے والا یعنی اولڈ نِک اس کا مسلسل جنسی استحصال کرتا ہے جس کے نتیجےمیں ایک بچی پیدا ہوتی ہے لیکن فوراً ہی مرجاتی ہے، اغوا کرنے والا اسے کہیں جاکر دفنا دیتا ہے۔ پھر جیک پیدا ہوتا ہے۔ یہ کہانی جیک کو ایک عام بچے کی طرح پالنے اور پوسنے کی کہانی ہے۔ ایک ستم زدہ ماں اپنے بچے کو یہ احساس نہیں ہونے دیتی کہ وہ قید ہے۔ وہ اسے تعلیم دیتی ہے، اور دنیا جہان کی باتیں بتاتی ہے، اس پر اولڈ نِک کا سایہ تک پڑنے نہیں دیتی ہے۔ اور ایک دن وہ جیک کو بتاتی ہے کہ حقیقی دنیا بہت بڑی ہے اور وہ اس کمرے سے باہر کی دنیا ہے۔ منصوبہ بنا کر وہ جیک کو اس کمرے سے فرار کروا دیتی ہے۔ پھر پولیس اسے بھی تلاش کر کے سات سال بعد اس دنیا میں واپس لے آتی ہے جہاں سے اسے اغوا کیا گیا تھا۔ ہم ایک پانچ سالہ بچے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیک کو ROOM اور باہر کی دنیا کا موازنہ کرتے دیکھتے اور سنتے ہیں۔اور خود میں ایک تبدیلی سی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ناول بچوں کی اور ایک ماں کی نفسیات کو انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ممتا کا جذبہ کس قدر قیمتی ہوتا ہے۔ ( اردو زبان میں ایک سال قبل محسن خان کا ناول ” الله میاں کا کارخانہ ” آیا تھا،وہ بھی ایک ننھے بچے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی ایک شاندار کہانی تھی) انگریزی کا یہ ناول ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے۔ آسٹریا میں ایک باپ نے اپنی سگی بیٹی کو ستائیس سال کی طویل مدت تک ایک تہہ خانہ میں قید رکھ کر اس کا جسمانی اور جنسی استحصال کیا تھا،وہ بیٹی سات بچوں کی ماں بنی تھی۔ ایک بچہ پیدائش کے چند روز بعد ہی مر گیا تھا جسے ظالم باپ نے گھر کے صحن میں گاڑ دیا تھا۔ تین بچے ماں کے ساتھ تہہ خانہ میں ہی پلے بڑھے اور تین کو زانی باپ نے اپنی بیوی کے ساتھ یہ کہہ کر پالا کہ اس نے انہیں گود لیا ہے۔( یہ ناول پر تبصرہ نہیں ایک مختصر سا تعارف ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ انگریزی کے وہ پاپولر ناول جو مطالعے میں آئیں ان کا مختصر تعارف پیش کر سکوں)