!!مٹّی کا دیا

“مٹی کا دیا “

اسماء احمد ۔ اسلام آباد

مجھے گھٹن سی محسوس ہورہی تھی ۔ شاید پیاس لگ رہی تھی ۔ ہائے کیسی مجبوری تھی کہ اپنی پیاس بجھانے کے لیئے بھی کسی کی مدد درکار تھی ۔ بے چینی بڑھ گئی ۔ چار دیواری کے اندر روشنی مدھم ہوتی جا رہی تھی ۔ ممکن تھا کہ کچھ ہی دیر میں مکمل اندھیرا چھا جاتا۔ اور میں ؟

میرا کیا ہے ۔۔۔۔کوئی پیاس بجھا دے تو اس کی مہربانی ورنہ انتظار تو میرا مقدر ہے ہی ۔

انتظار بھی عجیب اذیت ہے ۔ ہر ایک لمحہ اپنے وجود کے رندے سے چیرتا اور تڑپاتا ہے ۔۔۔۔مگر گزرتا نہیں ۔۔۔۔ دیوار پر لگے کلاک کی سوئیاں بھی جیسے خوف سے ٹھٹھر کر رہ گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔ صبح نجانے کب ہوگی ۔

اپنی پیدائش کا وقت اور جگہ تو یاد نہیں ۔۔۔ یاد اشت کی کھڑکی سے باہر جھانکوں تو دھند میں لپٹی جو تصویر دکھائی دیتی وہ ایک وسیع میدان ہے۔ میں اور میرا خاندان اسی میدان کے ایک کونے میں کچی چھت تلے پناہ گزین تھا ۔ گرمی سردی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا ۔ بہار کی ایک سہانی صبح میں اور میرا خاندان ایک عالی شان محل میں پہنچا دئیے گئے ۔ ٹھنڈے پانی کے حوض میں خوب غوطے لگائے۔ ۔۔۔ بڑا مزا آیا ۔۔۔۔۔ کافی دیر تازہ ہوا اور اور درختوں تلے کی نرم دھوپ میں اپنا بدن سکھایا۔۔۔۔۔ بہارکی ہوا میں بھی پھولوں کی مہک تھی ۔۔۔۔ہم درخت کے سائے تلے کونپلوں سے پھوٹتی خوشبو اپنے اندر اتار تےرہے تھے۔ سورج ڈھلنے میں ابھی دیر تھی جب محل کو ملازموں نے ہم سب کو الگ الگ سرسوں کے تیل سے سیراب کتنا شروع کیا ، خشک بدن تیل کی چکناہٹ میں رچ بس گیا۔ روئی کی بتیاں ہمارے وجود میں بھرے تیل میں اتار دی گئیں ۔۔۔ خشک روئی تو نجانے کب کی پیاسی تھی ۔۔۔۔ لمحے بھر میں سارا تیل پی گئی ۔ ۔۔۔۔ میرا تو دل ہی ڈوب گیا۔ وہ تو بھلا ہو محل کے ملازموں کا جو تیل کے پیپے لئیے آ پہنچے اور ایک بار پھر ہمیں تیل سے بھر دیا۔۔۔۔۔

شام کا دھندلکا پھیلنے لگا توسرسوں کی مہک میں لپٹی بتّی کا سرا ذرا سا اٹھا کر میری گود سے باہر گرا دیا۔ ۔۔۔۔۔ میں حیرانی سے اس تماشے کو دیکھ بھی رہا تھا اور متجسس بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ محل کی روشوں ، سیڑھیوں ، تا لاب کی منڈیروں، محرابوں اور دالانوں میں تھو ڑے تھوڑے فاصلے پر ہمیں ترتیب سے سجا دیا گیا۔ ۔۔۔۔۔ اب میں کچھ گھبرا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اپنے دائیں بائیں دیکھا تو سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ اب تو دل بالکل ہی بیٹھ گیا۔ ۔۔۔۔ بائیں طرف میرا قریبی دوست گاچو موجود تھا اور مجھ سے بھی زیادہ ہونق دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟۔۔۔۔۔۔ میرے سرگوشی شاید اس تک نہیں پہنچی تبھی تو اس نے مڑ کر میری طرف نہیں دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔ میں اس سے دوبارہ سوال کرنا چاہ رہا تھا جب میں اس کی خوف سے پھیلی آنکھوں کو دیکھ کر چونک گیا۔ وہ میری سرگوشی پر دھیان دینے کی بجائے اپنے سامنے محل کی داخلی روش کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میری نظریں بھی بے اختیار اس طرف اٹھ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اف میرے خدا۔۔۔۔ میرا پورا بدن دہشت سے لرز کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔ روش پر رکھے سب دیئوں کے سرے شعلوں کی لپیٹ میں تھے۔۔۔۔۔ایک ایک کر کے سب کے سرےنارنجی ہورہے تھے۔ ۔۔۔ ہولناک منظر نے اس قدر دہلا دیا تھا کہ خبر ہی نہیں ہوئی جب ایک شعلہ بردار نے میری گود سے سمٹی بتّی کا سر ا پکڑ کر اسے شعلہ دکھا دیا۔ بتّی کا پورا بدن بل کھا گیا۔۔۔۔۔۔ اس کے منہ سے سسکاری نکلی ۔۔۔۔۔وہ تڑپی ۔۔۔۔ لرزی ۔۔۔۔۔ اور ہار مان گئی۔۔۔۔ میں اس کے دکھ پر رو دیا ۔۔۔۔۔۔۔

چند لمحے گزرے تو میں نے درد کی شدت میں کمی محسوس کی ۔۔۔۔۔ نظر اٹھا کر گاچو کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ بڑی کمینی سی مسکراہٹ ۔۔۔۔۔۔ میں نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی چمک میں مکاری کا رنگ صاف چھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔کیا ۔۔۔کیا مطلب ۔۔۔۔ کس بات کی خوشی ۔۔۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔۔۔؟

اوہ ۔۔۔ میں بھی کس قدر احمق ہوں ۔۔۔۔۔۔ ارے ہم بچ گئے ہیں ۔۔۔۔۔ مصیبت ہمارے لیئے نہیں بلکہ بے چاری روئی کی بتّی کے لیئے تھی ۔۔۔۔۔۔ ہم۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ ہم سب تو اب بھی خوشبودار تیل سے سیراب ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہا ں بےچاری روئی کی بتّی جل کر بھسم ہوجائے گی ۔۔۔۔۔ درد سہے گی مگر کچھ کہہ نہیں سکے گی۔۔۔۔ میں پتھر دل نہیں ہوں مگر میں اس کے لیئے کچھ کر بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔

کر تو سکتے ہو۔۔۔۔۔ اگر چاہو تو۔۔۔۔۔ کسی نے سرگوشی کی

کیا؟؟؟

میں تو خود مٹّی کا معمولی سا دیا ہوں ۔۔۔۔ میں کیا کر سکتا ہوں ؟

تھوڑا سا تیل چھلکا دو ۔۔۔۔ نارنجی شعلے کو آگے بڑھنے سے روک دو۔

بہار کی مہکتی ہوا کا ہاتھ تھام کر ذرا سا ہلکورا لے لو ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے ذرا سا زخمی ہو جاؤ لیکن تمہاری چھوٹی سی قربانی اس کی جان بچا لے گی ۔

اور چاہو تو بہار کی ہوا سے التجا کرو کہ سب دئیوں کو ایک ہی پھونک سے اس بھڑکتے نارنجی رنگ سے مکتی دے دے۔

کوشش تو کرو۔۔۔۔ ہمت تو کرو ۔۔۔۔ظلم کے مقابل تو آؤ۔۔۔۔۔سرگوشی بلند ہو کر تیز آواز میں بدل گئی

میں نے گاچو کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اس کی نظروں اور چہرے کی بےزاری صاف عیاں تھی ۔۔۔۔۔ اس نے اپنی نظر کے خاموش اشارے سے مجھے اس بے وقوفی سے باز رہنے کی تنبیہ کی ۔

میں انجان آواز کے سحر سے نکلنے کی تگ و دو کرنے لگا۔ گاچو کی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ وہ میرا بچپن کا دوست تھا ۔ موسموں کی ہر تنگی اور ہر رنگ ہم ایک ساتھ جھیلا تھا ۔ اس کا مشورہ میرے لیئے ہوا میں تیرتی سرگوشی سے زیادہ مقّدم تھا ۔ میں نے روئی کی بتّی کی دردناک کراہوں کی طرف توجہ ہٹانے کی کوشش کی ۔۔۔ مگر کیا کروں ۔۔۔۔ میری ہی گود میں وہ درد کی شدت سے بل کھا رہی تھی ۔۔۔۔ کان بند بھی کر لوں تو اس کے جسم کی اینٹھن مجھے بے چین کیئے دے رہی تھی ۔۔۔۔۔

میں نے بے بسی سے گاچو کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اس کی تیز نگاہوں نے میری تکلیف کو فوراً ہی بھانپ لیا۔ ۔اس نے میری توجہ گھٹتے ہوئے تیل کی طرف موڑ دی ۔ واقعی روئی کی بتّی تو بڑی تیزی سے میرے وجود کو چوس کر مجھے بنجرکر نے والی تھی ۔ غصّے اور نفرت نے میرے دل سے رحم کا ہر جذبہ نوچ ڈالا۔ میں نے بہار کی خوشبودار ہو ا کا ہاتھ تھام کر زور کا ہلکورہ بھرا، ذرا سا لڑکھڑایا، ایک لمحے کو تو ڈر ہی گیا کہ منڈیر سے گر کر ریزہ ریزہ ہو جاؤں گا ۔۔۔۔ مگر ایسا نہ ہو ۔۔۔۔ میرے وجود میں بھرا نفرت کا تیل چھلکا اور روئی کی بتّی کا سلگتا نارنجی سرا خاموش ہو گیا۔۔۔۔ ایک سنّاٹا سا میری رگ و پے میں اتر گیا ۔ میرے آس پاس زندگی منجمد ہو گئی۔۔۔۔۔ میں گھبرا گیا ۔۔۔۔ احساسِ ندامت نے مجھے گھیر لیا ۔

گاچو کی کمینی سی مسکرا ہٹ قائم تھی۔۔۔۔۔ آس پاس کے سب دئیے روشن تھے ۔۔۔۔ میں اور گاچو اندھیرے میں ڈوب گئے تھے ۔۔۔۔ میں پریشان تھا اور گاچو خوش ۔۔۔۔اس کی خوشی کا سبب میں جان نہ سکا۔۔۔۔۔ ایک روشن زندگی کو موت کی نیند سلا کر وہ کیسے خوش تھا ۔۔۔۔۔ اس کی نظریں ایک جانب ٹکی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔ ایک ملازم تیل کپّی اور روئی کی نئی بتّیاں تھامے دوڑا چلا آرہا تھا ۔ ۔۔۔۔۔ گاچو ہنس پڑا۔۔۔ اس کی ہنسی میں انوکھی کھنک تھی۔۔۔ میں حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ ملازم نے ہماری گودیں تیل سے لبالب بھر دیں ۔۔۔۔سرخوشی سے میں بھی جھوم گیا۔ پرانی بتّی چٹکی سے پکڑ کر قریبی کیاری میں پھینک دی ۔۔۔۔ بے چاری ادھ موئی بتّی نے نقاہت سے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور اپنا سر گلاب کی زمین کو چھوتی ایک نرم ٹہنی پر ڈال دیا۔

نئی نویلی روئی کی بتّی میری گود میں بھر آئی ، تیزی سے اپنے خشک بدن کو تیل سے سیراب کیا ، ملازم نے تیل کم ہوتے ہی مزید تیل بھر دیا ۔ میں اور گاچو چند لمحے پہلےکا احوال بھول کر نئی زندگی کے سہانے خواب دیکھنے لگے ۔ ملازم نے حسبِ سابق روئی کی بتّی کا سرا اٹھایا اور شعلہ دکھا دیا ۔۔۔۔ اف۔۔۔۔ وہ زور سے تڑپی ، اس کا پورا بدن بل کھا گیا ۔۔۔۔اس کی خاموش چیخ میرے کان سے ٹکرائی ۔۔۔۔ میں نے عادتاً گاچو کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ روئی کی بتّی کی چیخوں اور کراہوں کو مدھر موسیقی کے سر تال کی طرح سن رہا تھا اور بہار کی ہوا کے سنگ لہرا رہا تھا۔۔۔۔۔ میں نے رشک سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ اس لطف کو محسو س کرنے کی کوشش کی جو گاچو کو اس قدر محظوظ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد روئی کی بتّی کی دردناک سسکیاں مدھر تانوں میں بدل گئیں ۔ بہار کی ہوا کا ہر جھونکا رقص کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ میں اور گاچو مست ہو کر دنیا ما فیہا سے بے خبر زندگی کا مزا لوٹنے لگے ۔

رات کب ڈھلی معلوم ہی نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ دیئے ایک ایک کر کے خاموش ہونے لگے ۔ میں اور میرا دوست اب بھی روئی کی بتّی کی مدہم پڑتی سسکیوں کی تال پر محوِ رقص تھے۔ پاس گزرتے ملازم نے انتہائی لاپرواہی سے گاچو کو گردن سے دبوچا ۔۔۔۔ اس اچانک افتاد پر گاچو نے اس زور سے بل کھایا کہ مجھے روئی کی بتّی کا بل کھاتا بدن یاد آ گیا۔۔۔۔ تیل میں ڈوبا گاچو کا بدن ملازم کے ہاتھ سے مچل کر پھسلا اور پختہ فرش پر جا گرا۔۔۔۔ گا چو کی آخری چیخ نے مجھ لرزا کر رکھ دیا۔ اس کا چمکتا ، تیل کی خوشبو سے مہکتا، بہار کی ہوا کی سنگت میں رقص کرتا جسم فرش پر گرتے ہی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔۔۔۔۔ ملازم نے نفرت سے گاچو کر ریزہ ریزہ وجود کو اپنے مضبوط چمڑے کے جوتے سے اسی کیاری میں دھکیل دیا جہاں ادھ جلی روئی کی بتّی گلاب کی نرم ٹہنی پر سر ٹکائے، نیم وا آنکھوں سے سب تماشا دیکھ رہی تھی ۔

اس کی معدوم مسکراہٹ نے مجھ خوفزدہ کر دیا ۔۔۔۔۔ میں بھی اس کی تکلیف کا حصّہ دار تھا ۔۔۔۔ گاچو اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔۔۔۔ کیا اب میری باری ہے ؟

ملازم نے نہایت بےدردی سے میری گردن دبوچ لی ۔۔۔۔۔ اپنے دوست کا انجام دیکھنے کے بعد میں نے احتجاج کی جراءت تو دور ، منہ سے سسکاری بھی بلندنہیں ہونے دی ۔

گاچو تو سیدھا موت کی وادی میں اتر گیا ۔۔۔۔۔ اور میں ؟

اگر پوچھ گچھ ہو گئی تو کیا جواب دوں گا ۔۔۔۔۔ گاچو کے بہکاوے میں آگیا تھا ۔۔۔۔۔

کیوں ؟

اپنی عقل ۔۔۔۔ اپنا کردار ۔۔۔۔ اپنی سوچ ۔۔۔سب مر گئے تھے کیا؟

دل و دماغ میں جنگ چھڑ گئی ۔۔۔۔ دماغ بچ نکلنے کی تاویلیں سوچنے لگا اور دل ۔۔۔۔ دل کے کچوکے احساسِ گناہ بڑھانے لگے ۔

اگر روئی کی بتّی نے ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کر دی توَََ۔۔۔۔۔ میں نے ملازم کی گرفت سے ذرا سا سر نکال کر روئی کی بتّی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ وہ اسی طرح نڈھال سر ڈالے پڑی تھی ۔۔۔۔۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا ۔۔۔۔۔ اس میں اتنی طاقت کہاں کہ سر اٹھائے ۔۔۔۔۔۔ شکایت کرے ۔۔۔

دیوں کا سارا تیل نچوڑ کر اکھٹا کر لیا گیا اور سب کے خالی جسم ایک ڈھیر کی صورت میں جمع کردئیے گئے ۔ میں سب کی نظروں سے چھپتا چھپاتا ڈھیر کی تہہ میں اتر گیا تاکہ سب کی نظروں سے محفوظ رہوں ۔ گاچو سے بچھڑنے کا غم اپنی جگہ لیکن اس کی ہولناک موت نے مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھا دی تھی کی اپنی کرنی کا بھگتان تو بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔ اب عافیت اسی میں تھی کہ جب تک چھپ سکتا ہو چھپا رہوں ۔

دوپہر کے بعد ملازموں کے بیوی بچے ہمارے گرد اکھٹے ہو گئے ۔

یہ دو دیئے میرے ہیں ، رات کو چھت پر کبوتر دیکھنے جاؤں گا تو روشنی کے لیئے جلاؤں گا۔۔۔۔۔

یہ میرے ہیں ۔۔۔۔ دو ہاتھ بڑھے اور ایک ساتھ کئی دیئے اٹھا لیئے ۔۔۔۔۔اتنے کیا کرو گی؟ ۔۔۔۔۔ میں انہیں رنگ کر کے گھر میں سجاؤں گی ۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔اچھا لیکن اتنے زیادہ نہیں ۔۔۔۔ باقیوں کو بھی لینے دو۔۔

امّاں میں بھی لے لوں ۔۔۔۔ رات کو جب بجلی کا بلب بند ہو جاتا ہے تو میرے سکول کا کام ادھورا رہ جاتا ہے ۔ دیئے کی روشنی میں کام پورا کر لوں گا۔

ہا ں ہاں ۔۔۔لے لو

مجھے بھی منت کے دیئے جلانے ہیں ۔

میں بارہ ربیع ا لاوّل کو چراغاں کروں گی

اور میں نے میلاد کی محفل میں دیئے بھی جلانے ہیں

ارے کچھ دیئے حکیم سیداں کو ضرور بھیج دینا ۔۔۔۔ ان کا خاص پیغام تھا ۔۔۔ وہ دئیے کی لو سے ایسا کاجل تیار کرتے ہیں کہ سفید اور کالا موتیا خود بخود بہہ کر نکل جاتے ہیں

دیوں کی تقسیم جاری تھی ۔۔۔۔ میں چھپتا چھپاتا ڈھیر سے مزید دور ہو گیا۔۔۔۔۔ فرار ہی بچاؤ کا واحد راستہ ہے ۔۔۔۔۔ شام کا دھندلکا پھیلنے لگا ۔ مجمع چھٹ گیا ۔۔۔ چند چٹخے ، ٹوٹے ، ادھورے دیئؤں کے سوا سب اپنی اپنی منزل پر روانہ ہو چکے تھے۔ جو بچے تھے وہ ابدی نیند کے مزے لے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ایک میں تھا۔۔۔۔۔ تنہا۔۔۔۔۔ سہما۔۔۔ اپنے گناہوں اور اپنے پتھر دل کی سیاہی کو چھپانے کی فکر میں غلطاں ۔۔۔۔ نہ کوئی منزل تھی نہ ہی منزل کا نشان ۔۔۔۔۔ چند لمحوں کی لذت نے بے بسی کی دوزخ میں پھینک دیا تھا ۔۔۔۔۔

آنسو میری آنکھوں سے بہہ نکلے۔۔۔ شام کے اترتے اندھیرے کو روشن کرنے کے لیئے روئی کی بتّی نہیں تھی ۔۔۔ وہ کس قدر درد سہتی تھی مگر اجالا بکھیرتی رہتی تھی۔۔۔۔مجھے احساس ہونے لگا کہ اس کے بغیر تو میرا وجود بے معنی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں کس قدر احمق تھا کہ اپنی روح کی روشنی کو خود ہی تکبّر، خود پسندی ،خود لذّتی اورخود غرضی کی تاریکیوں میں غرق کرکے اتراتا تھا۔۔

نیم تاریکی میں کوئی میرے پاس آ کر ٹہر گیا ۔۔۔ میں آنسوؤں کی چادر کی اوٹ سے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میلے سے ہاتھ نے مجھے زمین سے اٹھا لیا۔۔۔۔۔۔ میں خوف سے کانپنے لگا ۔۔۔۔۔اس نے مجھے ایک بدبودار تھیلے میں ڈال دیا ۔تاریکی اور سڑاند کی وجہ سے مجھے متلی سی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ شکر ہے یہ سفر زیادہ طویل نہیں تھا ۔

پرانے خستہ حال مقبرے کے طاق پر بیٹھے نجانے کتنا وقت بیت چکا ہے ۔۔۔ کئی بار کا جلا،سڑا بھسا بدبودار تیل مل جاتا ہے ۔۔۔۔ اب تو نئی نویلی روئی کی بتّی کا منہ دیکھے بھی برسوں بیت گئے ہیں ۔۔۔۔ پرانے کپڑے کی بساندی بتّی ہی میرا مقدر ہے۔ ۔۔۔۔مقبرے کے اندر دو قبریں ہیں ۔۔۔۔ ایک صاحب مقبرہ جو زیرِ زمیں بھی دعاؤں سے سرفراز ہے اور ایک طاق پر دھرا میرا وجود جو نہ ہی کسی کی نظرِ کرم میں ہے اور نہ ہی کسی درد مند دل کی توجہ کا مرکز۔روئی کی بتّی تو تڑپ کر امر ہوگئی اور میں مسلسل سلگ رہا ہو ۔۔۔۔۔ کون جانے سزا کب تمام ہو گی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *