!!معاصرفلسطینی کہانی:ایک مطالعہ

محمدافتخارشفیع

معاصرفلسطینی کہانی:ایک مطالعہ

ہمارے ہاں کے ترجمہ نگاروں نے جہاں دنیا کی ہر اہم زبان کے ادب کو اردو میں منتقل کیا ہے، وہاں معاصر عرب شعرا وادباکی تخلیقات کے تراجم بھی کتابی صورت میں کم کم سہی لیکن منظر عام پر ضرور آئے ہیں۔ بعض رسائل و جراید میں تو عربی ادب کے بالعموم اور فلسطینی ادب کے بالخصوص تراجم مختلف گوشوں کی شکل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مقدار کے لحاظ سے ان تراجم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ اکثر و بیش تر عرب ممالک میں آزادیِ رائے پر پابندی ہے، سلاطین کی مدح سرائی سے فرصت ملے توکسی اورجانب نگاہ بھی ہو، گھٹن زدہ معاشروں میں اسی وجہ سے مطلوبہ آزادی کی قابل قدر مقدار نہ ہونے کے سبب اس ادب کا مقام شاید ثانوی درجہ بھی نہیں رکھتا۔ البتہ جو عرب شعرا و ادبا بیرونِ ملک ادب تخلیق کررہے ہیں، ان کے موضوعات عمومی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست آمیز احتجاج پرمبنی ہوتے ہیں۔ایک اور مسئلہ پاکستان اور عرب ممالک کے مابین علمی وادبی تعلقات کی کمی بھی ہے۔ہماری توجہ زیادہ تر لیبرکلاس کے ذریعے درہم ودینارکمانے تک محدود رہی ہے۔ اس فکری بے بضاعتی کاذکرکرتے ہوئے جمیل الدین عالی لکھتے ہیں کہ:

”ہمارے اور عرب دنیا کے مابین ایسے روابط بہت کم ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم تاریخی، جغرافیائی اور جذباتی طور پر اس دنیا سے اتنے قریب ہوں، قریباً۳۷۹۱ء سے جہاں ہمارے لاکھوں شہریوں کی معاش وابستہ ہو اور اس وابستگی کے فیوض زرمبادلہ کی صورت میں یہاں مسلسل پہنچے ہوں، لیکن شعبہئ ادب میں کتابوں سے استفادہ اور ادیبوں کے تبادلے نہ ہونے کے برابر ہوں۔(۱)

پچھلی چند دہائیوں میں عربی ادب سے براہِ راست تراجم اور دوسری عالمی زبانوں سے ترجمہ در ترجمہ کے عمل کو خاصی تقویت ملی ہے۔جدید دور میں عرب دنیاکے علمی مراکز قاہرہ اور بیروت ہیں،یہاں سے طبع ہونے والی کتابوں تک رسائی زیادہ مشکل نہیں۔ اردو میں فلسطینی ادب کے بالواسطہ اور بلاواسطہ شعری تراجم کی تعداد توقابل ذکرہے لیکن نثری تراجم کی طرف دھیان بہت بعدمیں گیا۔ فلسطینی ادب کے وابستگان بھی نثرکی طرف بہت بعد میں متوجہ ہوئے۔

قدیم عربی ادب میں حکیمانہ اور فلسفیانہ مقولوں، کاہنوں کی کہاوتوں اور قصے کہانیوں کی کثیر تعداد موجود ہے، لیکن نثر کی باقاعدہ اصناف کی طرف عربی سخن ور بہت بعد میں آئے،یوں جذبات نگاری سے تعقل پسندی کی طرف کا یہ سفربھی زیادہ پرانا نہیں لگتا۔فلسطینی ادب کو عالمی سطح پرمتعارف کروانے میں ان مہاجرادیبوں نے بنیادی کرداراداکیا جو عدم شناخت کے المیے کے سبب دنیاکے مختلف ملکوں خاص طورپرامریکا،کینیڈا اور یورپ نقل مکانی کرگئے۔ فلسطینی ادب کے ان تخلیق کاروں کے ادب کے لیے ”الادب المہاجروں“ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ان ادیبوں نے ترقی یافتہ ممالک کی معاشرت سے انجذاب حاصل کرکے اپنے موضوعات کوبیان کیاہے۔عربی ادب میں جدید اصنافِ نثر کی تاریخ بھی خاصی مختصر ہے۔ مغربی دریچوں سے جو روشنی عربی کی طرف آئی اس کے اثرات تو بہت پہلے مرتب ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن اس میں باقاعدگی بیسویں صدی کے ابتدائی پچاس سالوں میں آئی۔ عربی ادب میں جدید اصناف نثر کی مقبولیت اور اس کے آغاز کے ابتدائی دنوں پر روشنی ڈالتے ہوئے عبدالحلیم ندوی کہتے ہیں:

”مغربی ادب اور مغربی فکر و نظر کے اثر سے عربی ادب میں جو نئے فنون، نئے رجحانات اور نئے مکاتبِ فکر و نظر پیدا ہوے تھے اور ان کے مطابق جو تجربے ہوے وہ سابقہ زمانے کے اعتبار سے نئے اور بڑی حد تک اچھوتے تھے، لیکن آج کل کے معیار سے ان میں پختگی، گہرائی اور گیرائی نہیں پیدا ہوپائی تھی۔ یہ کام جنگ عظیم کے بعد سے ہونا شروع ہوا اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد کمال کو پہنچا“۔(۲)

اسی دور میں مغربی تعلیم اور تہذیب و تمدن کے زیرِ اثر عربی ادب میں ناول، افسانہ، ڈراما اور سفرنامہ جیسی اصناف لکھی جانے لگیں۔”یہ دور محمد علی پاشا کے دور سے لے کر پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے تک چلتا ہے“(۳)۔ یہی دور تھا جب جدید عربی ادب میں مصطفی لطفی منفلوطی، ہارون النقاش اور خلیل جبران جیسے ادیبوں کے نام منظر عام پر آئے۔ ہیکل کا شہ پارہ ”زینب“ اور المویلجی کا ”حدیث عیسیٰ بن ہشام“ بھی اس دور کی تخلیقات ہیں۔ابتدائی دور میں نئی متعارف کردہ اصناف سخن کی طرح کہانی کی بنیاد میں بھی کچھ کمی اور کج روی محسوس ہوتی ہے۔ مختصرکہانی عربی ادب میں ایک نئی صنف ہے، اس نے بیسویں صدی میں ہی عرب دنیا میں مقبولیت حاصل کی، اس سے پہلے اس کو فروغ حاصل نہ ہونے کی بہ ظاہر وجہ عربی ادب کی تاریخ کے مخصوص حالات ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی سے پندرھویں صدی عیسوی تک کے طویل دور میں عربی ادب بہت سے ارتقائی مراحل سے گزرا، اس میں تجربات کے مختلف موڑ آئے۔ جس زمانے میں یورپ کی علمی دنیا میں ناول اور افسانہ اہم مقام پر فائز تھے، عربی ادب کے دامن میں پرانے شعری ذخائر کو ازسرِ نو تازہ کرنے کے نظریے کے سوا کچھ اور نہ تھا، عربی ادب کے جمود کے زمانے میں جب یورپی ادب ناول کے فروغ کے لیے کوشاں تھا تو عربی ادب میں کیا صورت حال تھی، اس کی صحیح عکاسی سلمیٰ خضریٰ الجیوسی نے یوں کی ہے:

”جب انیسویں صدی میں عربی ادب میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا تو شاعروں کو اپنی پرانی روایت سے ایسا بہت سا سرمایہ میسر آیا جس کی مدد سے وہ نئی عمارت کھڑی کرسکتے تھے، فنی نقطہئ نظر سے دیکھیے تو دورِ جمود سے ورثے میں ملی ہوئی پامال اور فرسودہ نظم کو زبان و بیان کی ایک نئی توانائی اسی صورت بخشی جاسکتی تھی کہ پھر سے قدیم شاعری سے رجوع کیا جاتا اس لیے کہ توانائی تو اپنی زبان کے بہترین نمونوں سے استفادہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے“(۴)

مسئلہ فلسطین کوعالمی سطح پر خالص انسانی حوالے سے دیکھاجاتاہے۔ایک قوم نے اپنی سرزمین پردوہزارسالہ قیام میں ایک طاقت ور تہذیب وتمدن اورعلمی وادبی سرمائے کی بنیادرکھی ہواور چند دہائیوں میں اسے اچانک اقلیت بناکراس کے نشانات کومعدوم کرنے کی سعی کی جانے لگے،یہاں تک کہ وہ قوم زندگی کے بنیادی حوالوں سے بھی عدم شناخت کے خطرے سے دوچارہوجائے۔ اس صورت حال نے فلسطینی ادب میں ایک خاص قسم کا جارحانہ پن پیدا کیاہے۔اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ ایڈورڈ سعیدنے اپنی کتاب ”مسئلہ فلسطین“میں اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔وہ کہتے ہیں:

فلسطینیوں کو جس تکلیف دہ وجودی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اس کاتعلق ان کی سیاسی بقاسے ہے جس کی ضرورت وہ سبھی محسوس کرتے ہیں۔لیکن مسئلہ صرف سیاسی بقاہی کا نہیں،اس کے ساتھ وہ نتائج و عواقب بھی شامل ہوگئے ہیں جوعلاقے سے محروم ہونے اورسیاسی طورپراجنبی بن جانے کی وجہ سے ظہورمیں آئے ہیں اور ان نتائج وعواقب نے صورت حال کواوربھی گمبھیر بنادیاہے۔فلسطینیوں میں یہ احساس توضرور ہے کہ ان اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے مقامات پر ان کے دوسرے مسلمان یاعرب بھائی بندموجودہیں کے درمیان ایک رشتہ مواخات کا ہے لیکن اس احساس پر بھی اس تکلیف دہ وجودی صورت حال کی،جس کا انھیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، چھاپ لگی ہوئی ہے۔فلسطینیوں کے نزدیک دوسرے عرب ایک سطح پران کے ساتھ اخوت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں لیکن ایک دوسری سطح پر ان دونوں کے درمیان ایک ایسی خلیج بھی حائل ہے جسے پاٹناممکن نہیں۔یوں کہیے کہ تعلقات کی یہ متناقض صورت حال زمانہئ حال میں پیداہوئی ہے کیوں کہ یہ زمانہ ئ حال کا مسئلہ ہے۔معاصرزمانے کامسئلہ جو فلسطینیوں اوردوسرے عربوں کوایک دوسرے کے قریب بھی لاتاہے اورانھیں ایک دوسرے سے الگ بھی کرتاہے۔ایک فلسطینی کے نزدیک عربوں کاایک ماضی بھی ہے اورمشرق وسطیٰ کاعربوں کا ایک مشترکہ مستقبل بھی۔لیکن اب زمانہ ئ حال میں کیفیت یہ ہے کہ فلسطینی قوم نہ صرف عدم استحکام کاشکارہے بل کہ اسے یہ خطرہ درپیش ہے کہ وہ کہیں تحلیل ہی نہ ہوجائے۔(۵)

فلسطین اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عربی یا انگریزی ادب سے اردو میں ترجمہ کی جانے والی کہانیاں خاصی تعداد میں موجود ہیں۔نجی اشاعتی اداروں کی کاوشوں اور ادیبوں کی انفرادی جستجو اور اردورسائل وجرائدکے خصوصی شماروں کی کاوشوں سے دیگراصناف ادب کے ساتھ ساتھ فلسطینی کہانی کو بھی پاکستان میں متعارف ہونے کاموقع ملاہے۔فلسطینی ادب میں مختصرکہانی کی پیدائش کے حوالے سے نور المصیری کا کہنا ہے:

”یہ استدلال قائم کیا جاسکتا ہے کہ ۰۲۹۱ء کی دہائی نے فلسطین میں کہانی کو جنم لیتے ہوئے دیکھا۔ کہانی کاروں کی پہلی نسل نے، جس میں خلیل بیدوس سب سے نمایاں تھے۔ انھوں نے بیانیہ تکنیک ان نمونوں کے ترجمے، اخذ اور نقالی سے سیکھی جو زیادہ تر یورپی تھے“(۶)

اس عہدمیں فلسطینی کہانی اپنی شناخت کی جستجومیں تھی۔ جستجو کے اس عمل میں یہ کامیابی اسے ۰۳۹۱ء کی دہائی میں اس وقت حاصل کی، جب لکھنے والوں کی ایک نئی نسل منظر عام پر آئی۔ اس عہد کی کہانیوں میں سوشل ازم کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس نوع کے لکھنے والوں میں محمود سیف الدین الایرانی کا نام قابل ذکر ہے۔ ان کے ہاں میکسم گورکی کی تخلیقی دنیا پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ الایرانی کے افسانوی رنگ کی اتباع خاصے وسیع پیمانے پر ہوئی۔ ان کے اثرات قبول کرنے والوں میں قادر اسماء طوبیٰ، ایملی حبیبی، اوراریف الازوینی اہم ہیں۔ اس دور کے اہم افسانہ نگاروں میں سماجی واقعیت نگاری کے حوالے سے عبدالامیہ یٰسین، محمد ادیب العامری اور جبرا ابراہیم جبرا کے ابتدائی افسانے پیش کیے جاسکتے ہیں۔ نور المصیری کے مطابق:

”اس وقت کی فلسطینی کہانیوں کی پوری طیف اس وقت کے بیش تر فلسطینیوں کے اپنی قومی جدوجہد اور اس کے مقاصد سے وابستگی کا اظہار کرتی تھی۔ حد سے بڑھا ہوا قومی جوش اور جذباتیت، بعض مواقع پر تکنیکی معاملات کو نقصان پہنچاتے تھے اور بہت سی کہانیوں کا لہجہ دو ٹوک اور چیختا ہوا معلوم ہوتا تھا“(۷)

فلسطینی کہانی اس وقت ایک بہت بڑی حقیقت سے آشنا ہوا، جب ۸۴۹۱ء میں (قیام اسرائیل کے سبب) معاشرتی سطح پر خلل، شکست اور بے دخلی کی فضا نے ظہور کیا۔ نئے موضوعات فلسطینی کہانیوں میں وارد ہوئے اور ایک جدید طرزِ احساس پیدا ہوا۔ ۸۴۹۱ء کے بعد کے فلسطینی کہانی میں خلقِ خدا کی زبوں حالی، وطن کی یاد اور سرزمینِ وطن پر واپسی کے موضوعات جذبات کی پوری شدت کے ساتھ برتے گئے۔ بعض افسانہ نگاروں کے ہاں فلسطین کی جدوجہد آزادی کی تحریک اور سیاسی تنظیموں کے قوم پرست نظریات سے وابستگی بھی دکھائی دیتی ہے۔ کئی جگہوں پر تخلیقی انداز میں لوگوں کی قربانیوں اور زمین کے ساتھ ان کی موانست پر بڑی صراحت سے روشنی ڈالی گئی۔مہاجرین فلسطین کے کیمپوں میں پناہ گزینی، غم و اندوہ اور روز مرہ زندگی کی مشکلات کو مرکزی موضوع کے طور پر پیش کیا گیا۔

اس عہد کی کہانیوں میں چیختے، چنگھاڑتے اور انقلابی سورماؤں کی بہادری کے قصے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح کی جذباتیت کہانی کے لیے زہر قاتل سمجھی جاتی ہے۔یہی دور تھا جب سمیرا عظام کی کہانیوں کا مجموعہ ”ظل الکبیر“ شائع ہوا۔ اپنی خوب صورت بناوٹ اور اسلوب کی نفاست کی بدولت یہ مجموعہ رجحان ساز ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ غسان کنفانی اور جبرا ابراہیم جبرا نے فلسطینی کہانی کے فنی و فکری ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔ محمود شقیر، راشد ابو شاور، یحییٰ یخلیف اور احمد عمر شاہین کا نام متاخرین میں آتا ہے۔ اسی عہد میں مقبوضہ فلسطین میں قیام پذیر کہانی نویسوں میں ایملی حبیبی، محمد علی طحہٰ، محمد نافع اور ذکی درویش وغیرہ کے ہاں ایک علامتی اور اشاراتی رنگ بھی پیداہوا، جس کی ایک وجہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے آزادیِ اظہار پر لگائی جانے والی پابندی بھی بنی۔

۷۶۹۱ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ناکامی نے فلسطینی کہانی کو نئی صورت حال سے دو چار کیا۔ محمد کاظم کے مطابق:

”جون اور اس کے بعد کے واقعات کا عکس کسی نہ کسی شکل میں عربی افسانوں کی غالب اکثریت کے موضوعات میں ملتا ہے۔ اس وجہ سے عربی افسانہ ان دنوں ترقی اور اقبال مندی کے دور سے گزر رہا ہے۔ خصوصاً کمیت کے اور نئے ہیتی تجربوں کے اعتبار سے“(۸)

۷۶۹۱ء کی جنگ میں عربوں کی ناکامی سے فلسطینی کہانی حقیقت نگاری کے اور بھی قریب ہوگئی، اس کے مزاج میں حالاتِ حاضرہ پر کھلی تنقید کرنے کی جرأت بھی پیدا ہوئی اور ہیئت کے حوالے سے بھی مختلف تجربات اس کا مقدر بنے۔ بعض کہانی نویسوں کے ہاں یہ تنقید تلخی و تندی، احتجاج اور مایوسی میں ڈھلتی دکھائی دیتی ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے بعد مندرجہ ذیل قسم کی کہانیاں لکھی گئیں:

ا۔ ایسی رپورتاژ نما کہانیاں جن میں تفصیل کے ساتھ جنگ کے مشاہدات اور سنے سنائے واقعات کو کہانی کا موضوع بنایا گیا۔ اس قسم کی کہانیوں میں حرارت آمیزی پائی جاتی ہے لیکن کہیں کہیں یہ من گھڑت اور ذاتی تجربے سے عاری بھی دکھائی دیتی ہیں۔

ب۔ ایسی کہانیاں جو فدائی کارروائیوں کے بارے میں ہیں۔ یہ موضوع کے اعتبار سے صداقت اور مشاہدے سے بھرپور دکھائی دیتی ہیں۔

ج۔ اس نوع کی کہانیاں عرب ملکوں کی داخلی زندگی کو موضوع بناتی اور عرب قوم کی موروثی خامیوں کا تذکرہ کرتی ہیں۔

د۔ آخری قسم میں وہ کہانیاں شامل ہیں جو مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے اندر کی زندگی کے واقعات کو تمام کرب و اندوہ کے ساتھ قاری تک پہنچاتی ہیں۔

اردو میں ترجمہ کی گئی فلسطینی کہانیوں میں زیادہ تعداد مختصر کہانیوں کی ہے۔ یہ کم طوالت رکھنے کے باوجود مفاہیم اور معنویت کے حوالے سے اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہیں۔چند سطروں کی ان کہانیوں کو پڑھ کے حیرت ہوتی ہے کہ تخلیق کار نے لفظوں کو کس شعور کے ساتھ احسن انداز میں ابلاغ کا وسیلہ بنایا ہے۔

آج کی فلسطینی کہانی مہاجرت اور پناہ گزینی کے دکھوں، تاریخ کے مختلف فیصلہ کن واقعات کے نتائج وعواقب اور اسرائیلی حکام کی طرف سے بنائے گئے سخت قوانین کوبھی موضوع بناتی ہے۔اس میں ہمیں آج بھی ایک جارحانہ اسلوب دکھائی دیتاہے۔ اس پرالبرٹ کامیو، ژاں پال سارتر اور کارل مارکس کے گہرے اثرات ہیں، سارتر کے فلسفہئ وجودیت اور مارکس کے جدلیاتی مادیت کے فلسفے سے فلسطینی کہانی نویسوں نے ایک الگ جہانِ معنی تعمیرکیا۔ اپنی زمین سے بے دخل ہوجانے کے اندوہ سے ان کے تخلیقی شعور، جذبات اور افکار میں ایک خاص تبدیلی آئی ہے،اور ان کی تحریریں عالمی سطح ہرایک موثرآوازبن کر ابھری ہیں۔

حوالہ جات

۱۔جمیل الدین عالی،(دیباچہ)،”سعید کی پر اسرار زندگی“، ایملی حبیبی،مترجم،انتظارحسین،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی،۶۹۹۱ء، ص ۸

۲۔عبدالحلیم ندوی،”عربی ادب کی تاریخ“، جلد اول،مکتبہ عالیہ، لاہور، ۷۸۹۱ء، ص ۷

۳۔عبدالحلیم، ندوی،”عربی ادب کی تاریخ“، ص ۸

۴۔عبدالحق حقانی القاسمی،”فلسطین کے چار ممتاز شعرا“،تخلیق کارپبلشرز، نئی دہلی، ۵۹۹۱ء،ص۲۱۱

۵۔ایڈورڈسعید،”مسئلہ فلسطین“،مترجم،شاہدحمید،بک کارنر،جہلم،۱۲۰۲ء،ص۲۱۳

۶۔آصف فرخی، (مترجم)،”فلسطینی افسانے کی مختصر تاریخ“، نورالمصیری، کتابی سلسلہ، دنیا زاد، کراچی: شمارہ۵، ۱۰۰۲ء، ص ۱۶۲

۷۔آصف فرخی، (مترجم)،”فلسطینی افسانے کی مختصر تاریخ“، نورالمصیری، ص ۲۶۲

۸۔محمد کاظم، ”عربی ادب کے مطالعے“،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۷۸۹۱ء، ص ۸۹

محمدافتخارشفیع,فلسطین کی منتخب کہانیاں,اکادمی ادبیات پاکستان