!!!مضطرب کوئ نہیں

کوئ پانی کا ذخیرہ
کوئ چھتنار درخت
دور تک آنکھوں میں پھیلی
سبز کچنار زمیں
اور یہ چاہے بھی تو کیا
ڈار کے ڈار پرندے اتریں
رنگ سے، نور سے،
چہکار سے, میخانہ سجے
دھن کوئ چھیڑے طرب آرا سی
بے کلی رقص میں آئے
منہ چراتی ہے بہت معصومی
جب بھی دیوار تكو
ایک آئینہ شکستہ
کہ بنٹے ہیں چہرے
سارے درکے ہوئے موسم،
ہیں خراشوں سے بھرے،
خون سنے،
کُچھ بھی سالم قفسِ جاں میں نہیں
اُنگلیوں نے ہے قلم پکڑا ہوا
ذبح حالت میں ہے اِک نظم نویس
اور کاغذ پہ اُترتی ہی نہیں سبز پری
ایک بے انت سمے بیت گیا
ہاتھ قندیل لیے
پاؤں _
زنجیر کو جھنکار کیے
خندقِ خوف سے گرتے پڑتے
خارزاروں سے گزرتے، ہانپتے کانپتے چلتے چلتے
اب جو پہنچے تو کہاں تک پہنچے
چاہِ گُم تک آئے
اور آگے کا سفر
بحرِ اسود سے اُدھر
منتظر، اور گھنی گہری رات
کوئ چارہ بھی نہیں
کھیل _
یہ کھیل ہے کیا
بونٹ سے دالیں الگ کر دی گئیں
کاٹ ڈالی گئیں سب ڈوریاں بندھن والی
تانے بانے اُدھرے
وہ جو زرتار بُنی چادر تھی
اب تو ہونے کا یقیں بھی نہ رہا
اور کیا احسنِ تقویم کوئ
عکس آنکھوں میں اُترتا ہے، بچے ہونے كا
وہ بھی تصویر ہے کیا _
کوئ ویران جزیرہ
تودہء خاک پہ آسیب زدہ خالی گھر
دھجّی دھجّی بدنِ گُل بدناں
خستہ دیوار کے سائے میں دِیا
شب کی دہلیز پہ رکّھی ڈھبری
خواب و اِمکان پہ خنجر کی انی
ایک سفّاک سا منظرنامہ
ضائع ہوتی ہوئی ساعت
ضائع ہوتا ہوا میں
اور احساسِ زیاں
مضطرب کوئ نہیں
کوئ نہیں

© انور شمیم