!محمد نذرالحسن ‘شاذ ” کی غزلیں اور نظم

بے ربط آرزو – ایک نظم

نہ دل مجھے فَطین دے

نہ ذہن ہی کَمین دے

اگر جو عقل دے مجھے

تو وہ ذرا مہین دے

تماشہ گر میں ہو رہوں

مجھے تماش بین دے

کہ سانپ کوئی پل سکے

نہ کوئی آستین دے

زمانہ جگمگا اٹھے

وہ سیرتِ زرین دے

نہ کوئی بھی خوشی ملے

نہ وہ دلِ حزین دے

جو دے نہ کر شمار وہ

نہ ایک، دو، نہ تین دے

جہان سارا ہو مِرا

نہ ہِند دے نہ چِین دے

جو دل مکان دے دیا

تو اسکا پھر مکین دے

مجھے وہ پہلے سا سکوں

تُو اے مِری مشین دے

ذرا ہو اطمینانِ قلب

نہ دولت و زمین دے

میں لفظ کچھ بنا سکوں

مجھے بھی قاف، شین دے

نہ دل جنہیں بھلا سکے

نظارے دل نشین دے

حقیقتوں میں ڈھل سکے

وہ خواب بھی حسین دے

زمانے کو پھر اے خدا

خلیفے راشدین دے

جو نام پر تِرے جھکے

مجھے وہی جبین دے

میں جس پہ چل کے جی سکوں

مجھے وہ میرا دین دے

اخیر تک ڈٹا رہوں

وہ صبرِ عاشقین دے

میں جس میں مر کے سو سکوں

وہ تھوڑی سی زمین دے

جو کچھ اگر دے ‘شاذ’ کو

تو خود پہ بس یقین دے

——- 2 ——

نہ جانے کیوں یہ خطرہ ہو گیا ہے؟

دلوں پر سخت پہرہ ہو گیا ہے

یہ کیسا کھیل گہرا ہو گیا ہے؟

کہ میرا دل بھی اُس کا ہو گیا ہے

تماشہ دیکھنا تھا شوق جس کا

وہ خود بھی اِک تماشہ ہو گیا ہے

وہ پہلے سے ہی تھا بدنام کچھ تو

مگر، اب زیادہ رسوا ہو گیا ہے

تِری محفل میں وہ آیا ہے جب سے

وہ تب سے اور تنہا ہو گیا ہے

ابھی بھی جوش باقی کم نہیں ہے

اگرچہ جسم پسپا ہو گیا ہے

بجھا کر پیاس کچھ میرے لبوں کی

وہ دریا خود بھی پیاسا ہو گیا ہے

محبت کی مِری تاثیر ہے کہ

بُرا ہر شخص اچھا ہو گیا ہے

کہانی اور لمبی ہو گئی ہے

مِرا کردار چھوٹا ہو گیا ہے

بدن سے روح کھِنچتی جا رہی ہے

خدایا! کیا وہ لمحہ ہو گیا ہے؟

ہُوا ہے کون اُس کا آج آخر؟

نہ جانے ‘شاذ’ کس کا ہو گیا ہے؟

——— 3 ——–

ہواؤں سے کوئی کہہ دے نہ روکے راستہ میرا

کہ انکے روکنے سے کب رکے گا قافلہ میرا

جنہیں کچھ بھی سمجھ آتا نہیں ہے فلسفہ میرا

کریں گے بس وہی سب لوگ مل کر فیصلہ میرا

ابھی ہوں تو نہیں ہے کچھ بھی میری قدر اور قیمت

نہ میں ہونگا تو پھر تم طئے کروگے مرتبہ میرا

مخالف وقت اور حالات مجھکو کیا ڈرائیں گے

نہ ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا کبھی بھی حوصلہ میرا

مِرے مورث میں ہیں اقبال، غالب ،میر اور خسرو

کہو تو! کن سے جا کر ملتا ہے یہ سلسلہ میرا

میرا ہونا نہیں ہونا، نہیں ہونا بھی ہونا ہے

مستحکم، ‘شاذ’، اُس سے اِس قدر ہے رابطہ میرا

———— 4 ———-

جو ہے حال میرے دل کا سبھی تجھ پہ ہی عیاں ہے

کہ نظر سے تیری مخفی کہاں میرا یہ جہاں ہے

تجھے کیا بتاؤں اب میں کہ کیا جستجو ہے میری

تجھے سب خبر ہے اسکی مِرے دل میں جو نہاں ہے

جو کہا نہیں کسی سے وہی میرا ہے فسانہ

جو سنی نہیں کسی نے وہی میری داستاں ہے

نہ پتہ چلے کسی کو جو رہے یہ راز بہتر

کہ کہوں نہ میں کسی سے جو ہمارے درمیاں ہے

کوئی فصل جس میں نہ ہو وہی ایک کھیت بنجر

کہ وہ دل نہ جس میں تو ہو وہ مکاں کوئی مکاں ہے

مجھے کچھ غرض نہیں ہے کسی اس جہاں کی شئے سے

تو زمین بھی ہے میری، تو ہی میرا آسماں ہے

تیری بندگی الہی میری زندگی کا حاصل

جو نہ بندگی ہو اس میں یہ حیات رائیگاں ہے

چلو ضد اگر ہے تیری تو میں راز فاش کر دوں

جو چھپا ہے سب نظر سے وہی میرا رازداں ہے

مجھے خوف کچھ نہیں ہے کسی بد سے اور شَر سے

تیرا ذکر میرے مولیٰ میری تیغ ہے، سِناں ہے

ہے فنا ہی بس مقدر اس جہاں کے ہر نَفَس کا

تیری ذات کے علاوہ جو بھی کچھ ہے سب دھواں ہے

تجھے ہر جگہ ہی ڈھونڈا پہ کہیں نہ تجھ کو پایا

تو اگر نہیں ہے مجھ میں تو بتا کہ پھر کہاں ہے؟

تِرے نام سے ہی روشن ہے جہاں کا گوشہ گوشہ

اسی نور سے منور مِرے دل کا بھی جہاں ہے

میری ٹوٹی پھوٹی باتیں اے خدا قبول کر لے

تیرا حق ادا کرے جو، نہ وہ ‘شاذ’ کو زباں ہے