!!قِصّہ ہری یوپیا کا

قِصّہ ہری یوپیا کا

✍🏻 حنا جمشید

ہڑپا کے کھنڈرات مجھے کبھی اُجاڑ، ویران، بیابان یا اجنبی نہ لگے، ان خرابوں میں دفن ماضی کے بھید بھرے اسرار نے ہمیشہ مجھ سے مکالمہ کیا۔ گزرے زمانوں کی اس عظیم الشان تہذیب سے مجھے ہمیشہ ایک ایسی انسیت محسوس ہوئی جو انسان کو اپنی تہذیبی شناخت سے کسی نادیدہ ڈور کی مانند باندھے رکھتی ہے۔

ناول ”ہری یوپیا“ میرے اسی رشتے اور تخیل کی داستان ہے، جس کی مہمیز مجھے اس مانوس خرابے نے خود کسی امانت کی صورت سپرد کی۔ میں نے پہروں اس دھرتی پر ہاتھ رکھ کر، یہاں سرسراتی صدیوں کے پھیلاؤ کو محسوس کیا اور ان پوشیدہ زمانوں کی خاک اپنے گرد اُڑتی دیکھی، جن میں مدفون اثاثے آج بھی اسی قریۂ شکستہ میں کہیں زیرِ زمیں اپنے ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ وقت سحر انگیز تھا، جب مَیں نے تخیل کی آنکھ سے اُن لوگوں کو اپنے گرد چلتا پھرتا دیکھا، جن کے تابناک قدموں نے، ہزاروں سال قبل اس دھرتی پر ایک منظّم تہذیب کی بنیاد رکھی اور اپنے ہونے کے ایسے نشان ثبت کیے، جنھیں فنا کے ہاتھ چھو کر بھی نہ مٹا پائے۔

ہری یوپیائی تہذیبی شعور کو مزید قریب سے دیکھنے کی چاہ اور قدیم عکسی تحاریر کے متون کو پڑھنے کی خواہش تب حسرت میں تبدیل ہو گئی، جب تاریخی کُتب کے انبار اور معلوماتی لیکچرز نے مجھ پر، ہزاروں سال قبل کے اس شہرِ جدید کے نت نئے رنگ وا کیے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں لسانیاتی مباحث کی تدریس کے دوران، زبان کی تاریخ و تشکیل کے متنوع نظریات، نیز ہند یورپی و ہند آریائی زبان و ثقافت کے آغاز و ارتقا کے مباحث نے میرا رشتہ اس خطے کے قدیم مقامی لوگوں کے ساتھ زیادہ پختہ و مضبوط کر دیا۔ ان کے بارے میں مزید جان لینے کی کھوج نے مجھے صدیوں قبل کے اس سماج کے دو بدو لا کھڑا کیا جہاں سے تہذیب نے اپنا ارتقائی سفر شروع کیا تھا اور لفظ، شبدوں اور عکسی تحاریر کے متون کی صورت معنی کے دھاگوں میں پروئے جا رہے تھے۔ ہری یوپیا کے قدیم باسیوں کی تمدنی سوجھ بوجھ، غائر علاقائی شعور، جدتِ فکر اور نت نئی تخلیق کی حیرت انگیز صلاحیت جیسے جیسے مجھ پر منکشف ہوتی گئی، ویسے ویسے میرے لیے اس تحیر آمیز تمدنی جوہر کو اپنی ذات تک مقید رکھنا محال ہوتا چلا گیا۔

یہ ناول میرے کئی برس کے تحقیقی و تخلیقی اضطراب کی ایک مجلد صورت ہے، جس میں اپنے تخیل سے رنگ بھرتے ہوئے مجھے کسی استناد کا دعویٰ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہری یوپیا میرا وہ خواب ہے، جو ہڑپا کے کھنڈرات میں، اپنی جاگتی آنکھوں سے میں نے بار ہا دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ آپ اسے عصرِ حاضر میں امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب بھی کہہ سکتے ہیں، جو ماضی میں بار ہا فنا سے نبرد آزما ہوا، مگر اپنی جرأت، ہمت اور اٹوٹ حوصلے سے مِٹ جانے والی تہذیب کے سینہ نما مدفن پر ایک نئی تہذیب بسا کر اپنے ثبات کا ببانگِ دہل اعلان کرتا رہا۔

ناول ”ہری یوپیا“ ایک بھرپور شہر کی تہذیب کے معدوم تمدنی نشانات کی باز آفرینی کا ایسا تخلیقی تجربہ ہے، جس نے مجھے بارہا اُبھرتی فنا کی چاپ اور نیستی کے سکوتِ کامل سے روشناس کراتے ہوئے، لمحۂ موجود کے قلزم میں موجزن ماضی و حال کی ان گنت صدیوں کا کرب عطا کیا ہے۔ آئیے! میرے ساتھ ماضی کے مبہوت کر دینے والے، اس بھید بھرے شہر بے مثال میں داخل ہونے کے لیے ایک دروازہ ہری یوپیا کی صورت آپ کے لیے کُھلا ہے۔

تصویر: بک کارنر شوروم جہلم پر ہری یوپیا (ناول) کی تقریب پذیرائی کے موقع پر…