!!!عالم زیب شناس کی نظمیں
(مکتوب بنامِ خدا)
خدا کو مکتوب بھیجو
لکھو کاتب
اے خدا
کچھ خبر ہے
تیری دنیا میں تیرے خاک کے بنے انسان نے
کیا تہلکہ مچا رکھا ہے ؟
تم دیکھ نہیں رہے
کمزور لوگ طاقتور کے قدموں میں
کچلے جا رہے ہیں
مغرور لوگ معصوم لوگوں کے
دل توڑ رہے ہیں
غریب مر رہے ہیں
امیر مار رہے ہیں
تیرے نازک تخلیقات
روندے جا رہے ہیں
تیرے عرش کا سایہ ظالموں پہ پڑ رہا ہے
مظلوم جل رہے ہیں
پچھلے خط میں تم نے کہا تھا
میں ظالم نہیں ہوں
میں تمہیں تیری ماں سے ذیادہ پیار کرتا ہوں
وہ دعوے دھندلے ہورہے ہیں
وہ وعدے کمزور پڑ رہے ہیں
بھوک کا گھیرا ہے
فرش کے خداؤں نے عرش کو للکارا ہے
تم خاموش کیوں ہو
تم کچھ بولتے کیوں نہیں ؟
تم کچھ کرتے کیوں نہیں ؟
تم سن رہے ہو
تم سن سکتے ہو
وہ فریاد جو اک ماں کے دل سے اکلوتا بیٹا
چھین جانے کے بعد نکلتی ہے
وہ چیخ جو اک
دلہن کے حلق سے
بیوہ ہونے کی خبر سن کر
نکلتی ہے
یہ سب بے موت مارے جاتے ہیں
انکو بے موت مارا جاتا ہے
یہ ظلم ہے
وہ قاتل ظالم ہیں
تم ظالم نہیں ہو
تم انہیں دکھاتے کیوں نہیں وہ جھلک
جو تم نے پچھلے
قوموں کو دکھائی
جو تم نے پچھلے گناہگاروں کو دکھائی
تم اپنے بے شمار معجزات سے
مظلوم کو
بچاتے کیوں نہیں ؟
اے خالق کائنات
تم تماش بین کیوں بنے ہو ؟
تم نے تماشہ بننے کیوں دیا ؟
ہم رو رہے ہیں
وہ ہنس رہے ہیں
ہمارے رونے کی آواز انکے ہنسنے کے
پیچھے دب جاتی ہے
ہمارے ہاتھ اتنے لمبے نہیں کہ ظلم کو روک سکے
ہمارا ایمان اتنا کامل نہیں
کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر تیری
عبادت کریں
اے رب ذوالجلال
ہم غیروں کے سامنے
رسوا ہو رہے ہیں
کچھ مذہب کے ٹھیکیدار تیرے دین کو
بدنام کررہے ہیں
تیرے دین کو رسوا کررہے ہیں
تم دیکھ رہے ہو
تم دیکھ سکتے ہو
تو ہی ہمیں بچا سکتا ہے
تو ہی ہمیں محبت کے لائق بنا سکتا ہے
اے کاتب
میرے دستخط کی جگہ میرے آنسو سے
پُر کرنا
مجھے خدا کو وہ دکھانا ہے جو ان کے
پاس نہیں ہے
—— 2 ————-
(ڈیجیٹل محبت)
خطوط کو زنگ لگ چکا ہے
قلم کی سیاہی
جم گئی ہے
وہ لوگ نہیں رہے
وہ Simplicity نہیں رہی
اب ہم جذبات کا اظہار ایک Text میسیج
کے ذریعے کرسکتے ہیں
ہم کسی شخص کو
سیکنڈوں میں Delete کرسکتے ہیں
یادوں کو Trash Box میں ڈال کر
سکون کی
نیند سو سکتے ہیں
ہمیں کسی کبوتر کی ضرورت نہیں رہی
کسی Postman کا انتظار نہیں رہتا
اب ہم پسندیدہ شخص سے Live مل سکتے ہیں
اب مجھے تمہیں دیکھنے کے لئے تمہاری
گلی کے
چکر کاٹنے نہیں پڑتے
میں نے تمہیں اپنے Gallery میں
محفوظ رکھا ہوا ہے
میں جب چاہوں تمہیں دیکھ سکتا ہوں
تمہیں چوم سکتا ہوں
میں نے تمہارا نام Wallpaper پر
لگا رکھا ہے
میں جب چاہوں تمہارا نام لے سکتا ہوں
میرے Lock Screen پر
تمہارے دئے گئے Watch کی تصویر ہے
میں جب چاہوں Time دیکھ سکتا ہوں
جب چاہوں سوئی
گھما سکتا ہوں
وہ قربتیں واپس لا سکتا ہوں
میرے Memory میں تمہارے
وعدوں کے Files اس قدر Store ہوئے ہیں
کہ کبھی کبھی دل Hang ہوجاتا ہے
میں نے تمہارے
پسندیدہ Song کی Ringtone بھی
لگائی ہوئی ہے
میں نے PicsArt میں تمہاری تصویر کے ساتھ
اپنی تصویر بھی لگائی ہوئی ہے
تمہارے لئے لکھی گئی کافی نظمیں
میرے پاس PDF Files میں Save ہیں
میں نے PhotoLab میں
تمہارے ہونٹوں کو
گلابی رنگ سے رنگ دیا ہے
لیکن
میں جب بھی ” محبت ہے تم سے ” Type کرنے کی
کوشش کرتا ہوں
میرے Keyboard سے الفاظ اُڑ جاتے ہیں
میری انگلیاں رُک جاتی ہیں
———- 3 ———
(یادیں)
مجھے یاد آتے ہیں وہ لمحات جب
ہم کسی انجان راستے پہ چہل قدمی کرنے
نکل آتے تھے
بلا کی تھکن لئے جب وہ میرے کندھوں
پہ سر رکھ کے
نصرت کے گیت گنگناتی تھی تب
درختوں کے سارے غمگین پرندے میرے
پہلو میں اُنکی سرور بھری
آواز کا لطف اُٹھانے بیٹھ جاتے
اُن کو یاد ہوگا وہ کہا کرتی تھی کہ
یہ محبت کے مارے ہیں
دل ہارے ہیں
جان وارے ہیں
اور میں بس اُنکی آنکھوں کی گہرائی
میں اُتر جاتا تھا
اُنکے ہونٹوں کو ہلتے دیکھ کر یوں
لگتا تھا جیسے
مِے خانے ناچ رہے ہوں
اُنکے تکلم کا انداز اس قدر
مسحور کن تھا کہ جی کرتا
کسی بڑے درخت کا سینہ چیر کر
وہاں بیٹھ کر
سات دن اُن کو سنتا رہوں
سات دن
جنت کی سیر کرتا رہوں
سات رنگوں سے خود کو رنگ ڈالوں
لیکن
کاش ….!
——- 4 ——
(ہرجائی)
سُنا ہے اُس جگہ سفید پھول
اُگ آئے ہیں
جہاں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی
جہاں اُنکی چوڑیاں ٹوٹ کر گِری تھی
وہاں اب آٹھ
خوشبوؤں کا بسیرا ہے
جہاں سے ہم نے
محبت کی شروعات کی تھی
اُس جگہ کو ساتھ رنگ کی تتلیوں نے
گھیر رکھا ہے
لیکن اب میں خزاں رسیدہ پتے کی طرح
ٹوٹ کر گر چکا ہوں
کسی بے خبر راہگیر کی طرح اُس نے مجھے
پیروں میں
مِسل ڈالا ہے
مجھے فراق کے اذیت ناک لمحوں نے
ایک ادھورا انسان
بنا دیا ہے
اب میں کسی حسین لڑکی کو ہنستے ہوئے
دیکھ کر
مسکراتا نہیں ہوں
پچھلی رات میں
کسی بے زبان جانور کے
کان میں سرگوشی
کررہا تھا
اپنے سفرِ زیست کی
داستان بیان کرتے کرتے
میں گہری نیند سو گیا تھا
صبح آنکھ کُھلی تو میرے کپڑے
اُس کے اَشکوں
سے گیلے ہورہے تھے
(جانوروں کو بھی عشق ہوتا ہے
جانور بھی عاشق ہوتے ہیں
شاید وہ بھی عاشق تھا ایک ناکام عاشق
بالکل میری طرح
اس کی آنکھوں میں بہت سی
باتیں تھی
بہت سے شکوے تھے
لیکن میں پڑھ نہ سکا
شاید میں اِس دور کا نالائق ترین عاشق ہوں)