!!عالم خورشید کی غزلیں
کیا ساتھ مرے کوئی بلا چلنے لگی ہے
پرچھائیں بھی اب مجھ سے جدا چلنے لگی ہے
موسم کی ادا میری سمجھ میں نہیں آتی
صرصر کی طرح بادِ صبا چلنے لگی ہے
آتی ہی نہیں میرے خرابے کی طرف وہ
اب چال کوئی اور گھٹا چلنے لگی ہے
میں پلکیں بچھائے ہوئے بیٹھا تو ادھر ہوں
سنتا ہوں ادھر تازہ ہوا چلنے لگی ہے
خاطر میں نہیں لاتے خریدار کو اپنے
لگتا ہے دکاں ان کی ذرا چلنے لگی ہے
———- 2————
نہ دل دکھے نہ کبھی چشم نم کسی کے ہوئے
صنم کسی کے تو اہلِ صنم کسی کے ہوئے
وہ عشق تھا کہ کوئی ہجر کا فسانہ تھا
نہ تم کسی کے ہوئے اور نہ ہم کسی کے ہوئے
عجیب عہدِ وفا ہے نئے زمانے میں
کہ شب کسی کے رہے صبح دم کسی کے ہوئے
نیا نظام مبارک ہو دوستوں کو مگر
کوئی بتائے تو کیا رنج کم کسی کے ہوئے
جو لوگ اہلِ ستم تھے کبھی کسی کے لیے
سنا ہے آج وہ اہلِ کرم کسی کے ہوئے
عبث ہے شاد کوئی اورعبث اداس کوئی
خوشی کسی کی ہوئی ہے نہ غم کسی کے ہوئے
محبتوں نے تو ایسی بھی جنگ جیتی ہے
کہ سر جھکے نہ کہیں سر قلم کسی کے ہوئے
میں لکھ رہا تھا خود اپنی کہانیاں عالم
اگرچہ سارے فسانے رقم کسی کے ہوئے
———— 3———–
کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے
محبتوں میں کہاں اعتدال رہتا ہے
فلک پہ چاند نکلتا ہے اور سمندر میں
بلا کا شور،غضب کا ابال رہتا ہے
دیارِ دل میں بھی آباد ہے کوئی صحرا
یہاں بھی وجد میں رقصاں غزال رہتا ہے
چُھپا ہے کوئی فسوں گرسراب آنکھوں میں
کہیں بھی جاؤ اسی کا جمال رہتا ہے
تمام ہوتا نہیں عشقِ ناتمام کبھی
کوئی بھی عمر ہو یہ لازوال رہتا ہے
وصالِ جسم کی صورت نکل تو آتی ہے
دلوں میں ہجر کا موسم بحال رہتا ہے
خوشی کے لاکھ وسائل خرید لو عالم
دلِ شکستہ مگر پُر ملال رہتا ہے
———- 4 —–
نہیں یہ بات غلط ہے، کہیں نہیں جاتے
کہیں جھکانے ہم اپنی جبیں نہیں جاتے
ہمیں تو خاک اُڑانے دو بے کرانی میں
فصیلِ شہر میں صحرا نشیں نہیں جاتے
کبھی جو عقل نے چاہا کہ ساتھ لے جائے
تو دل نے شور مچایا نہیں! نہیں جاتے
بچانا چاہتے ہیں ہم بچے ہوئے رشتے
سو اب کسی کے زیادہ قریں نہیں جاتے
تمہیں ہی شوق تھاآب و ہوا بدلنے کا
کہا تھا چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے
نہ جانے کیسی قیامت گزر گئی ان پر
گھروں کو چھوڑ کے یوں ہی مکیں نہیں جاتے
بھٹکتے پھرتے ہیں تا عمر ہم ادھر سے ادھر
جہاں سکوں ہو میسؔر وہیں نہیں جاتے
وہ شہرِ خواب ہمارے لیے نہیں عالم
گماں کے پیچھے ہم اہلِ یقیں نہیں جاتے