!!!ظفر اقبال کی غزلیں

یہ بات الگ ہے مرا قاتل بھی وہی تھا

اس شہر میں تعریف کے قابل بھی وہی تھا

آساں تھا بہت اس کے لیے حرف مروت

اور مرحلہ اپنے لیے مشکل بھی وہی تھا

تعبیر تھی اپنی بھی وہی خواب سفر کی

افسانۂ محرومی منزل بھی وہی تھا

اک ہاتھ میں تلوار تھی اک ہاتھ میں کشکول

ظالم تو وہ تھا ہی مرا سائل بھی وہی تھا

ہم آپ کے اپنے ہیں وہ کہتا رہا مجھ سے

آخر صف اغیار میں شامل بھی وہی تھا

میں لوٹ کے آیا تو گلستان ہوس میں

تھا گل بھی وہی شور عنادل بھی وہی تھا

دعوے تھے ظفرؔ اس کو بہت با خبری کے

دیکھا تو مرے حال سے غافل بھی وہی تھا

2

خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے

یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے

خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی

پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہئے

ڈوب کر مرنا بھی اسلوب محبت ہو تو ہو

وہ جو دریا ہے تو اس کو پار ہونا چاہئے

اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات

جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے

بات پوری ہے ادھوری چاہئے اے جان جاں

کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہئے

دوستی کے نام پر کیجے نہ کیونکر دشمنی

کچھ نہ کچھ آخر طریق کار ہونا چاہئے

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے