!!ضیا فاروقی کی غزلیں
میری آنکھوں میں جو تھوڑی سی نمی رہ گئی ہے
بس یہی عشق کی سوغات بچی رہ گئی ہے
وقت کے ساتھ ہی گل ہوگئے وحشت کے چراغ
اک سیاہی ہے جو طاقوں پہ ابھی رہ گئی ہے
اور کچھ دیر ٹہر اے مری بینائی کہ میں
دیکھ لوں روح میں جو بخیہ گری رہ گئی ہے
بوجھ سورج کا تو میں کب کا اتار آیا مگر
دھوپ جو سر پہ دھری تھی وہ دھری رہ گئی ہے
آئینو تم ہی کہو کیا ہے مرے چہرے پر
لوگ کہتے ہیں کہ پھیکی سی ہنسی رہ گئی ہے
کچھ بتا اے مرے نسیان یہ کیا ماجرا ہے
بات جو بھولنے والی تھی وہی رہ گئی ہے
جانے کیا بات ہے موسم میں ضیا اب کے برس
دھوپ کے ہوتے ہوئے برف جمی رہ گئی ہے
——— 2 ———
روٹھ جاؤں میں اگر مجھ کو منانے آئیں
اس کی آنکھیں مجھے خود خواب دکھانے آئیں
کوئی افسانہ نہیں تلخ حقیقت ہی سہی
وہ مرا ذکر کریں مجھ کو سنانے آئیں
تشنگی میری اگر رقص کرے صحرا میں
پیشوائی کو مری کتنے زمانے آئیں
اک تجلی سی مرے دست دعا پر چمکے
اور پھر یہ ہو مرے ہوش ٹھکانے آئیں
کوئی دیوار جو گرتی ہے تو یہ سوچتا ہوں
پھر نئے ہاتھ اٹھیں اس کو بنانے آئیں
پھر کوئی ساز سر موسم ہجراں گونجے
تری یادیں مجھے پھر گیت سنانے آئیں
کوئی تو کار جنوں ایسا کروں میں بھی ضیا
یاد کرنے مجھے نادیدہ زمانے آئیں
————3————–
تشنگی میری یونہی رقصاں نہیں چھو کر سراب
میں نے پی رکھا ہے خوں اپنا بشوق اضطراب
میرے اطراف و جوانب ہے جو اتنی شعلگی
میری آنکھوں میں ہے روشن نیم شب کا کوئی خواب
میں بھی اپنے عہد کا قارونِ رنج و درد ہوں
میرے غم خانے میں یادیں ہیں کسی کی بے حساب
جانے کس کی جستجو لاتی ہے اس کو اس طرف
جھانکتا ہے میری کھڑکی میں جو آکر ماہتاب
کس کی یادوں سے مہک اٹھا ہے ویرانہ مرا
کس نے بھیجی ہے ہوا کے دوش پر بوئے گلاب
کاروبار زندگی نے اتنا دوڑایا مجھے
بھول بیٹھا ہوں میں حسن و عشق کا سارا نصاب
مجھ کو خود حیرت ہے اپنی رائگانی پر ضیا
کیا بتاؤں آپ کو رہتا ہوں کیوں خانہ خراب
——– 4 ———–
نہیں ملے گی اندھیرے سے اب نجات مجھے
کہ شام سونپ گئی ہے سیاہ رات مجھے
جدھر بھی دیکھئے گرد و غبار کا عالم
کہاں پہ چھوڑ گئی ہے مری حیات مجھے
وہ سرد رات کہ جب یخ تھی کائنات تمام
ترے خیال کی گرمی نے دی حیات مجھے
میں اپنے دانتوں سے روکے ہوں خالی مشکیزہ
کہ دے رہا ہے صدائیں ابھی فرات مجھے
میں جنگ ہار کے بھی رائگاں نہیں ہوتا
کہ سرخرو بھی تو کرتے ہیں حادثات مجھے
کھلی جو آنکھ تو گل تھا نہ بوئے گل نہ نسیم
نہال کر گیا موسم کا التفات مجھے
خلوص شاہ ضیا بے سبب نہیں ہوتا
بتا گئے ہیں زمانے کے حادثات مجھے
——– 5 ———
یہ کس کے سائے سے اٹھنا ہوا دشوار مجھ پر
کوئی آسیب ہے یا سایۂ دیوار مجھ پر
بچا ہوں رات بھی میں مرتے مرتے منظروں سے
ہوئی تھی رات بھی خوابوں کی اک یلغار مجھ پر
عجب ساشور ہےہر سو خریداروں کا جیسے
میں بک جاؤں اگر کھل جائے یہ بازار مجھ پر
میں اک حجرہ نشیں اپنی ہی دنیا کا قلندر
یہ جو شوریدہ سر ہوں وقت کی ہے مار مجھ پر
مرے آئینہ میں سب کچھ ہے لیکن میں نہیں ہوں
ہوا ہے منکشف یوں بھی مرا کردار مجھ پر
یہ لگتا ہے قدم پکڑے ہوئے ہے کوئی میرے
کہ اپنا جسم بھی اب ہوگیا ہے بار مجھ پر
ابھی وہ اپنی گویائی کو صیقل کر رہا ہے
ابھی کھلنا ہے باقی جوہر گفتار مجھ پر
ضیا جب توڑ ڈالے آئینے سب کیف و کم کے
کھلے ہیں تب کہیں اس شوخ کے اسرار مجھ پر