!!شاہین کاظمی کی غزلیں
وہ مری شامیں سہانی اور چُپ
ہائے اُس کی بدگمانی اور چُپ
شوق نے گلریز پنوں پر لکھی
اِک ادھوری سی کہانی اور چُپ
دو جلی شمعیں پرانی اور چُپ
بے سبب ڈستی رہی ہے عمر بھر
آنسوؤں کی یہ روانی اور چُپ
اپنے اپنے ذائقے میں زہر ہیں
آنکھ کا یہ کھارا پانی اور چُپ
ٹوٹ جائیں گے اچانک ایک دن
کانچ سپنے، نیند، رانی اور چُپ
—- — 2——-
گہرے کرب کی لذت میں
بات کرے مسکائے کون
جیون کا وہ انت سِرا
چھو کر واپس آئے کون
دل کے بھید بتائے کون
آنکھوں آنکھوں نیند اُتری
اب گلی گلی چلائے کون
آنکھ کی سوئیاں باقی ہیں
لیکن ہاتھ بڑھائے کون
گہرے کرب کی لذت میں
بات کرے مسکائے کون
جیون کا وہ انت سِرا
چھو کر واپس آئے کون
دل کے بھید بتائے کون
آنکھوں آنکھوں نیند اُتری
اب گلی گلی چلائے کون
آنکھ کی سوئیاں باقی ہیں
لیکن ہاتھ بڑھائے کون
—- 3 ——
جوق در جوق دوڑے چلے آئے تھےوہ حِراکا مکیں جب بلانے لگا
پیاسی روحوں کی بجھنے لگی تشنگی جام توحید کے جب پلانے لگا
نور برسا زمانے میں جب شان سےبے مرادوں کا دامن چھلکنے لگا
بند سینوں کی بوسیدہ قبریں کھلیں اور نیا بُور شاخوں پہ آنے لگا
سب ملائک حفاظت پہ معمور تھےجس گھڑی میرے آقا کی ناقہ چلی
تھاپ ڈفلی پہ پڑنے لگی دم بہ دم چاند گھاٹی میں جب جگمگانے لگا
میرےشاہِ زمن خاتم الانبیاؐموت طاری تھی کتنے یگوں سے یہاں
تُو نے بخشی جہاں کو نئی زندگی نبض چلنے لگی ،سانس آنے لگا
فرش بچھنے لگا تھا عنایات کاکاسہ تھامے ہوئے سب چلے آئے تھے
زر بٹا شاہؐ کی راجدھانی میں جب تاقیامت ہر اِک فیض پانے لگا
———- 4 ——————
یہ کھلتے گلوں کا موسم ایسا زرد،ضروری تھا مولا؟
یہ کانچ کے جیسا کھن کھن کرتا درد ضروری تھا مولا؟
اِس ہجر کی پیلی بارش میں ہیں روح پر اُبھرے نیل بہت
سانسوں کی تھکاوٹ کافی ہے یہ درد ضروری تھا مولا؟
یہ سرد رُتوں کی شامیں اور یہ ساتھ نبھاتی تنہائی
تھک ہار کے دھڑکن بول اُٹھی اِک فرد ضروری تھا مول