!!!شاعری لاعلاج ہے

شاعری لاعلاج ہے۔

تم مجھے نچوڑ کر

درد کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے

سگریٹ سے 

دھواں ہی اٹھ سکتا ہے

شعر کہتے ہوئے میرے حلق سے

پیپ رستی ہے

مجھے برین ٹیومر ہے

شیلف سے کتاب گری

تم اب بھی کھڑے ہو

چھت سے پنکھا کٹا 

تم اب بھی چل رہے ہو

چھت گری

تم بالوں سے دھول اڑارہے ہو

میں

دانت برش کررہا ہوں

آئینے کے دوسری طرف

کوئی برش سے 

میرے سینے پر 

دل پینٹ کررہا ہے

میں

بال کنگھی کررہا ہوں

اور 

راتیں 

میرے کندھوں تک لمبی ہورہی ہیں

تم مجھے چھوڑ کر 

گرد کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے

آسمان سے 

خدا ہی گرسکتا ہے۔

2

مبالغہ مطمئن ہے!

ایک سالہ بچی کو تیسرا بچہ بھی ہوگیا ہے

تین سالہ بچے سے

شیر گیدڑ کے آگے اٹھک بیٹھک کررہا ہے

سرکاری اسکول کے کسی نالائق بچے کی طرح

(مجھے نیند کی گولیاں لے لینی چاہئیں)

کائنات اتنی  وسیع نہیں ہے جتنا یہ مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہے

(بلیک ہول جھوٹ نہیں بولتے)

یہ بچہ

پانچ سال سے روزانہ 

روٹی کے بجائے پندرہ،بیس ستارے کھاتا آرہا ہے

ستاروں کی مائیں 

دن میں بیسووں بچے جنتی ہیں

اگر ستاروں کی نسل کُشی چاہتے ہو تو

بھوکے بچوں کو جنم دو

بچیوں کو حاملہ کرو!

مبالغہ مطمئن ہے

مبالغے کو مطمئن کرو

3

وہ ہیں کہاں

میں محسوس کرسکتا ہوں

مدھم ہوتے 

بلب کا کرب

جو آنکھیں چندھیا دیتا ہے۔

سینے سے روشنی کے نکلتے وقت

پیدا ہونے والی کیفیت کو 

خلا یا خدا کا نام دیا جاتا ہے۔

سونگھو!

میرے سینے سے

تتلیوں کی طرح اڑتے سینٹ کو

اڑو!

بیٹھو!

سونگھو!

اس بدبو کو جو شعر کہتے ہوئے

میرے حلق سے

 پھوٹتی ہے۔

تم میرے دل میں مرتو نہیں گئے ہو؟

سڑ تو نہیں گئے ہو؟

یادیں ۔۔۔۔

حافظہ کھا جاتی ہیں

مگر

بیکٹیریا کہاں غائب ہیں؟!

4

جسٹن بیبر کے لیے!

بیبر ،میرے یار!

ہم جانتے ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں

موسیقی ،اور شاعری کے بارے میں

ہمارے بارے میں

وہ ہم پہ لعنت بھیجتے ہیں

ہمیں گے سمجھتے ہیں

مگر چاہتے ہیں کہ تمہارے ہونٹ چوم لیں

ہاں ایسا میں بھی چاہتا ہوں

وہ چاہتے ہیں 

میری نظموں کو آگ لگادیں

میرے ہونٹ سی دیں 

یار، بیبر!

اب مزید کیا کہوں

بس ہمیں آپکے ہونٹوں کو ناپاک نہیں کرنا چاہئے

نغموں کو ناپاک نہیں کرنا چاہئے۔

5

ہوا کو سب خبر ہے

آئس کریم کھانے کے بعد

تم نے گنے کا جوس آرڈر کیا

چھت کے پار چمکتا، اکیلا ستارہ تمہیں تکتا رہا 

شاید اس کے پاس پیسے نہیں تھے

شاید وہ جوس پینا بھی نہیں چاہتا تھا

مگر

مگر ۔۔۔۔۔

مجھے وہ اداس لگا 

جیسے کہ وہ چھیننا چاہتا تھا 

تمہارے ہونٹوں سےلگے پائپ کو

یا ۔۔۔۔۔

ہاں مجھے وہ اداس لگا

بوائے فرینڈ نے پیمنٹ کرکے

تمہیں رکشہ میں روانہ کیا

اور 

ستارہ آکر میرے پاس بیٹھ گیا

پھر ہم نے اسی خالی گلاس سے اسی پائپ سے باری باری 

سارا جوس پی لیا

نرگسیت ہی محبت ہے۔

الیکٹرانز ننگے جسم 

 دوڑنے لگتے ہیں

گلیوں میں 

جب اندھیرا چھاجاتا ہے

فحاشی محض اندھیرے کی بے پردگی کا نام ہے

بلب کو

گلے لگاتے وقت 

مجھے تم شدت سے یاد آئے

ہینگر پہ 

کوٹ لٹکا کر 

میں نے 

بچھا دیا

اپنی روح کو 

زمین پر

اور سلادیا اسکی گود میں

 اپنا جسم

محبت تنہائی کو دور کرنے کے لیے ایک روح کا سہارا لیتی ہے

روح محض

ایک جسم کا نام ہے

جسے ہم پگھلادیتے ہیں

بغیر چھوئے

قسم کھائے بغیر

تمہیں گلے لگا کر

میں اپنی محبت کو ثابت کرسکتا ہوں

جو مجھے خود سے ہے

اور ہمیشہ رہے گی۔

6

And It Fell Down

ایک نظم 

منتظر ہے

ایک شاعر کی 

جو ہر رات

ٹوائلٹ سے بھاگ آتا ہے

بغیر پیشاب کئے

جب ایک چھپکلی دیوار پر

نمودار ہوتی ہے۔

ایک بوسہ 

منتظر ہے

ان ہونٹوں کا 

جو گل گئے ہیں 

تیزابی بارش میں 

اندھیرے میں 

قوس قزح سے آنکھ ملانے والے کھیت سرسبز ہوگئے ہیں

سراب اور شراب کتنے حسین الفاظ ہیں

ایک غبارہ 

منتظر ہے

ایک سوئی کا 

ایک دھماکہ۔

جانے دو!

میں نے دیکھا 

تم میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی

ایک چوہا آیا

اور میرا خواب کترنے لگا

میں نے دیکھا 

بادل زمین پر تیرنے لگے

اور آسمان پہ بارش ہونے لگی

مجھے  چاند کے آنسو بہتے ہوئے  دکھائی دئے

شیشے کے سامنے ننگا ہوکر 

میں نے بائیں ہاتھ سے اپنا ذکر

گاڑی کے اسٹئیرنگ کی طرح گھمانا شروع کیا

زور زور سے ہنسنے لگا،ناچنے لگا

میں نے دیکھا 

ایک کاکروچ کو 

غور سے

مجھے وہ کوئی شاعر لگا 

اور اسے جانے دیا۔

7

کون مجھے مارسکتا ہے؟

بس اسٹینڈ سے 

مجھے اغوا کر کے

لایا گیا 

جنگل میں

جہاں میرا گھر تھا

میرے سائکاٹرسٹ نے

مجھے دوہفتے بعد آنے کا کہا تھا

نہیں ہے کوئی لڑکی؟

جس کی چھاتیوں میں دانت گاڑوں

اور جو میرے خصیے دبوچ لے

میں 

کیفے ٹیریا میں 

ہر آنے جانے والے کے

پیروں کو

دیکھتا رہا

کسی پالش کرنے والے بچے کی طرح

مگر مجھے کسی کے جوتے 

 نہیں ملے۔

8

عید ہمارا قومی تہوار ہے

ایک بھیڑ 

بالوں میں تیل،

آنکھوں میں کاجل لگارہی ہے

ذبح ہونے کے لیے 

تیار ہونے میں جانوروں کو 

مزہ آتا ہے

سارے پنکھے چھتوں سے

اتار کر بھی

ہم جھول رہے ہیں

آسمان 

ہمیں ٹاس کے سکے کی طرح اچھالتا ہے

کھیل شروع ہونے سے پہلے

ہم اپنے سر اتار کر

پہن لیتے ہیں 

آہنی ٹوپیاں 

اور شاندار اننگ کھیلنے کے بعد 

ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ

ہمارے سر پھوٹ گئے ہیں

ہمارے ہی چھکوں سے۔

9

عنوان تو دیتے جاتے!

یہاں 

بھیڑ ہے

بہت بھیڑ ہے

ڈگمگاتی محبت !

آو، کسی دوسری سمت چلتے ہیں!

شرابی لڑکی!

تمہارے ہونٹ گل رہے ہیں 

گلابی لڑکی!

تمہاری پنکھڑیاں بکھررہی ہیں

تمہارے گال پگھل رہے ہیں

تتلی!

تمہاری خوشبو تمہاری روح سے پھسل رہی ہے

خاک جسم پہ مل رہی ہے

رنگ بدل رہی ہے

بنفشہ !

تمہارے بستے سے 

گررہے ہیں

وہ سارے پھول جو 

میں نے تمہیں دینے تھے

کالج جانے سے پہلے

ریت وقت کی طرح بہہ رہی ہے

میری آنکھوں میں 

مگر میں منجمد ہوں

کسی خواب میں 

کتوں سے بھاگتے ہوئے

ملیحہ تم سوجاو!

میں 

کچھ دیر اور

جاگوں گا

شاعری کے لیے۔

نام:نسیم خان

تاریخ پیدائش:

 ,10 April,1998-

تعلیم :ایم اے زیر تعلیم۔

پوسٹل ایڈریس:زمیندار جنرل اسٹور،چھاونی روڈ ژوب،پاکستان92

واٹس ایپ اور موبائل نمبر:03116656785

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *