!!شارجہ میں کسوٹی جدید کا 24 واں ماہانہ ادبی اجلاس

شارجہ میں کسوٹی جدید کا 24 واں ماہانہ ادبی اجلاس

متحدہ عرب امارات میں ادب کے نام پر گاہے بہ گاہے کچھ نہ کچھ سرگرمی ہوتی ہی رہتی ہے ۔عموما مشاعرہ ہی برپا کرلیا جاتاہے۔ کچھ لوگ ثقافتی ،تفریحی اور نیم تفریحی پروگرام کرکے ان کااندراج بھی ادب کے کھاتے میں کرلیتے ہیں۔ کسوٹی جدید کے زیر اہتمام ہونے والے ماہانہ ادبی اجلاسوں کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی نوعیت ادب کی تربیت گاہ جیسی ہے۔ بازی گاہ اور تفریح گاہ نہیں۔ چنانچہ جو لوگ تفریح اورتشہیر کی امید میں اس سے منسلک ہوتے ہیں وہ یہاں کی خشک اور اکیڈمک فضاء سے وحشت زدہ ہوکر” استعفی مرا با حسرت ویاس “کہتے ہوئے کچھ مدت میں کھسک لیتے ہیں ۔مگر جو لوگ شوق کے ساتھ ساتھ ادب کا ذوق بھی رکھتے ہیں ان کی شرکت فصل گل و لالہ کی پابند نہیں ہوتی، پابندی سے شرکت کا التزام کرتے ہیں الا یہ کہ کوئ ذاتی عذر مانع ہو۔حتی کہ وباء کے ہولناک دنوں میں بھی ان کے شوق فضول و جراءت رندانہ میں کوئ کمی نہیں آئ۔

گزشتہ اتوار کو شارجہ کے ایک ریستوراں میں افضل خاں ،ایڈیٹر کسوٹی جدید نے 24 ویں ادبی اجلاس کا اہتمام کیا ۔

اجلاس کے آغاز میں سر فراز سحر نے اپنی چند غزلیں پڑھیں

انشائیہ اردو نثر کی ایک مقبول صنف ہے ۔ انشائیہ در اصل ایک ایسا ہلکا پھلکا مضمون ہوتاہے جس میں موضوع کو بیان کرنے میں کسی خاص ترتیب سے کام نہیں لیا جاتا مگر اس بے ترتیبی میں بھی ایک حسن ہوتاہیے ،ایک ترتیب ہوتی ہے۔ انشائیہ کا رنگ نیم سنجیدہ اور نیم مزاحیہ ہوتا ہے۔ اس نوع کے مضامیں اردو میں بہت پہلے سے لکھے جارہے ہیں لیکن اس کو انشائیہ کا نام دے کر اس کے اصول وقواعد طے کرنے کا سہرا اوراق کے ایڈیٹر وزیر آغا کے سر جاتا ہے۔تقدیس نقوی امارات کی ایک سینئر ادبی شخصیت ہیں۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ” خراشیں” طبع ہو کر ادبی حلقوں سے داد و تحسین حاصل کر چکاہے۔ اجلاس میں انھوں نے اپنا انشائیہ بعنوان ” میر رائے بہادر” پڑھ کر ماحول کو باغ و بہار بنادیا۔

میگی اسنانی بنیادی طور پر ماہر تعلیم ہیں۔ گجرات میں تعلیمی پروجیکٹز پر ان کا کام ہے۔ گجراتی، ہندی ،اردو، تین زبانوں میں ادب تخلیق کرتی ہیں۔گجراتی ادب پر گہری نگاہ رکھتی ہیں۔ آج کل وہ گجراتی فکشن کو اردو میں منتقل کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ ۔ انھوں نے ونیش انتانی کے ایک گجراتی افسانہ کا ، ” سناٹا “کے عنوان سے اردو ترجمہ کیا تھا جس کو اجلاس میں پڑھا ۔ کہانی تو اچھی تھی ہی ، حاضرین نے ترجمہ کی خوبیوں کو بھی سراہا۔ تخلیقی ادب کا ترجمہ اسان کام نہیں ہے مگر اس کارگراں کو میگی اسنانی نے اس خوبی سے انجام دیا کہ اس میں کہیں ترجمہ پن نہیں جھلکتا تھا۔

شاداب الفت چار کتابوں کے مصنف ہیں۔تازہ ترین کتاب “عطر دان “کے نام سے شائع ہوئ ہے۔ شاداب الفت اپنی غزل نقد و نظر کے لئے حاضرین اجلاس کے سامنے پیش کی۔ ہندی ڈکشن میں چھوٹی بحر کی غیر مردف غزل کے معنوی اور ہیئتی محاسن پر شرکائے اجلاس نے سیر حاصل گفتگو کی۔

تھیٹر کے فنکار اور شاعر پرتیک رمزنے قرءۃ العین حیدر کے ناول “آگ کادریا” سے ایک اقتباس پڑھا۔

افسانہ نگار ڈاکٹر اصغر کمال نے” میں نے جب عالم غربت میں قدم رکھاتھا” کے سلسلے کے تحت اپنا مضمون پڑھا۔

” اپلاز ادب ” کی فعال شخصیت اور جواں سال شاعر مسعود نقوی نے “ایک شاعر دس غزلیں ” سلسلے کے تحت اپنی دس منتخب غزلیں پڑھ کر حاضرین نے خوب خوب داد حاصل کی۔

اس موقع پر شاداب الفت کی نئ نویلی کتاب عطر دان کی رونمائ ( منہ دکھائ ؟) کی رسم بھی انجام پائ۔ تین پہلے سے موجود ہیں۔ ہمارا مطلب کتابیں۔

نیر سروش کے شکریہ پر شارجہ میں منعقدہ اس ادبی اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔

روداد: افضل خاں، ایڈیٹر کسوٹی جدید ،پٹنہ ،انڈیا،

واٹس ایپ: 918447959026+