!!سلطان اختر کی غزلیں

تجھ کو پانے کے لیے خاک تمنا ہو جاؤں

تیرے قدموں میں بکھر کر ترا رستہ ہو جاؤں

اور کب تک میں کروں مدح سرائی اپنی

مجھ کو توفیق دے یارب کہ میں تیرا ہو جاؤں

تجھ کو کوئی بھی کبھی میرے سوا دیکھ نہ پائے

آنکھ میں بھر لوں تجھے اور میں اندھا ہو جاؤں

چند لمحوں کے لیے خود کو مکمل دیکھوں

بے ارادہ ہی سہی میں کبھی یکجا ہو جاؤں

فکر عقبیٰ نہ کروں تجھ میں گرفتار رہوں

شاعری تیرے لیے میں سگ دنیا ہو جاؤں

یہ کرشمہ بھی کسی روز تو روشن ہو جائے

تو مری آرزو میں تیری تمنا ہو جاؤں

میں کہ انبوہ عزیزاں میں کسی کا بھی نہیں

زندگی مجھ سے لپٹ جا کہ میں تیرا ہو جاؤں

یہ عجب شرط ہے تسلیم و رضا کی اخترؔ

خود کو پہچاننا چاہوں تو میں اندھا ہو جاؤں

2

سلسلہ میرے سفر کا کبھی ٹوٹا ہی نہیں

میں کسی موڑ پہ دم لینے کو ٹھہرا ہی نہیں

خشک ہونٹوں کے تصور سے لرزنے والو

تم نے تپتا ہوا صحرا کبھی دیکھا ہی نہیں

اب تو ہر بات پہ ہنسنے کی طرح ہنستا ہوں

ایسا لگتا ہے مرا دل کبھی ٹوٹا ہی نہیں

میں وہ صحرا جسے پانی کی ہوس لے ڈوبی

تو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کے برسا ہی نہیں

ایسی ویرانی تھی در پہ کہ سبھی کانپ گئے

اور کسی نے پس دیوار تو دیکھا ہی نہیں

مجھ سے ملتی ہی نہیں ہے کبھی ملنے کی طرح

زندگی سے مرا جیسے کوئی رشتہ ہی نہیں

3

معراج ارتقا ہے تماشا نہ جانیے
تہذیب عصر نو کو برہنہ نہ جانیے

ابھرا بہت پہ لوح سماعت سے دور دور
حرف صدا کو اب کے کہیں کا نہ جانیے

ہونے کو اس سفر میں بہت رائیگاں ہوئے
لیکن ہمیں شکست کا نوحہ نہ جانیے

بس اپنی ہا و ہو سے ہی رونق ہے چار سو
ویرانیوں کو زینت صحرا نہ جانیے

طوفاں کا نام سن کے لرزتی تو ہے مگر
دیوار جسم و جاں کو شکستہ نہ جانیے