!!سفیر صدیقی کی غزلیں

موت لازم ہے زندگانی میں

یعنی اک ناؤ بھی ہے پانی میں

بے قراری ہے مستقل یکساں

اف یہ ٹھہراؤ اس روانی میں

ہم وہ محرومِ سنگ ہیں جن کا

سر بھی شامل ہے رائیگانی میں

پنکھے تکتا ہوں اور سوچتا ہوں

ناگہاں کیا ہے ناگہانی میں

میں بھی ہوں تم بھی ہو ہوا بھی ہے

اور کیا ہوتا ہے کہانی میں

مرثیہ خواں سفیر صدیقی

فرد ہے اپنی خوش بیانی می

——- 2 ——-

بے قراری سی بے قراری ہو تو کہیں ہم کہ بے قرار ہیں ہم

ہم کو تو ایسی بے کلی ہے مخل، جس کے ہونے سے استوار ہیں ہم

کیا سنائیں کسی کو قصۂ دل، کیا بتائیں کسی کو خواہشِ جاں

وقت افسانوں کی کتاب ہے اور ہر فسانے کے پود و تار ہیں ہم

زندگی بھی زمین ہی کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتی ہے

عشق کی مد میں بار بار ہیں وہ، ہجر کی زد پہ بار بار ہیں ہم

ان کے کوچے کو جانے والو! انھیں، بے نیازی سے یہ بتا دینا

واں کوئی غم گسار ہو کہ نہ ہو، یاں بہرحال جاں نثار ہیں ہم

کیا کریں اس مکینِ گلشن سے اپنی صحرا نوردی کا شکوہ

جس قدر نرم پھول پھول ہے وہ، اس قدر ترش خار خار ہیں ہم

بس اسی کشکمش کی حرکت پر زندگی کاٹی جا رہی ہے سفیر

بے حساب ان کو بخت پر ہے یقیں، بے طرح محوِ انتظار ہیں ہم

———- 3 ———-

جی میں آتا ہے بدن نوچ لیں پاگل ہو جائیں

یا تو جنگل میں بسیں یا ہمیں جنگل ہو جائیں

ریشہ ریشہ مرے ناخن مجھے کر دیں تقسیم

ریزہ ریزہ مرے اعضا کہیں مختل ہو جائیں

جرعہ جرعہ مجھے پی جائیں مرے دیدۂ نم

رفتہ رفتہ مرے سب زاویے مہمل ہو جائیں

تلخ لمحات کا یہ بوجھ دبا ڈالے ہمیں

یوں کہ کچھ لمحے زمانے پہ بھی بوجھل ہو جائیں

سر پٹکتے ہیں کہ قائم رہے حرکت کا بھرم

ورنہ ہم وحشی صفت واقعی پاگل ہو جائیں

ہائے یادوں نے یہ کیا کردیا انجانے میں

ہم نے کب چاہا تھا سب جگہیں ہی مقتل ہو جائیں

دفعتاً آنکھوں میں بھر جائے اجالا ایسا

سارے منظر مری گم نظروں سے اوجھل ہو جائیں

بے کلی میں جنھیں میں چھیڑتا رہتا ہوں سفیر

کیا مزہ ہو جو وہ دیواریں بھی بیکل ہو جائیں

———– 4 ———

خواب بہتے ہوئے رستوں سے کنارا کر لیں

رونے والوں سے کہو یوں ہی گزارا کر لیں

دل مچلتا ہو تو کر لیں کسی انسان سے عشق

پھر بھی مچلے تو وہی عشق دوبارہ کر لیں

آپ کو چاند بنا لینے پہ کیا ہے موقوف

ہم تو جگنو کو بھی جب چاہیں ستارہ کر لیں

ناز برداروں سے ان کا یہ تقاضا ہے کہ وہ

خود ہی دیکھیں انھیں اور خود ہی اشارہ کر لیں

تھک چکا ہوں میں بدن ڈھوتے ہوئے حضرتِ دار!

آپ کچھ دیر مِرا بوجھ گوارا کر لیں

ہجر میں جان گنوا دینے کی کیا تُک ہے سفیر

عشق سودا تو نہیں ہے کہ خسارہ کر لیں