!!روداد قفس

روداد قفس

مصنف:حفیظ نعمانی

مطبع: تنویر پریس لکھنؤ

قیمت: 150 روپئے

رابطہ: 9415111300 (ہارون نعمانی)

مبصر : محمد علم اللہ، نئی دہلی

دنیا بھر کی تمام زبانوں میں، زندانی ادب کی ایک قدیم روایت رہی ہے، مفکر اور دانشور حضرات مختلف ادوار میں احتجاج کی آواز بلند کرنے اور سچائی کے اظہار کے لیے اپنے قلم کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملکوں میں اقتدار میں رہنے والوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف بے خوفی سے بات کی اور حق بولنے اور لکھنے سے سر مو انحراف نہ کیا، ایسے قلم کاروں کی فہرست میں مرحوم حفیظ نعمانی کا بھی نام آتا ہے، جن کی کتاب روداد قفس دراصل 1965 میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے لڑی گئی جنگ کے ایک محاذ کی کہانی ہے۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اپنے عہد کے ادبی، صحافتی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں معروف حفیظ نعمانی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ حفیظ نعمانی نے اپنے بے باک قلم سے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک صحافتی خدمات بحسن و خوبی انجاد دیں۔ قومی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک، ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بے شمار مضامین ان کے نوک قلم سے نکلے۔ وہ قلم کے ایک ایسے سپاہی تھے جن کے اندر دانشوری بھی تھی، تجربہ بھی اور اس کو بیان کرنے کا سلیقہ بھی۔ حفیظ نعمانی نے اپنی باوقار اور پر اثر تحریر سے لاتعداد اخبارات و رسائل کے صفحات کو مسحورکیا۔ جن میں بطور خاص ہفت روزہ ”ندائے ملت”، ہفتہ وار ”عزائم”،روزنامہ “ان دنوں”، روزنامہ “جدید عمل”،روزنامہ “جدید خبر” اور روزنامہ “اودھ نامہ” شامل ہیں۔

روداد قفس حفیظ نعمانی کی صحافتی تحریروں سے ہٹ کر خود نوشت اور دستاویزی نوعیت کی کتاب ہے جسے انھوں نے 1965میں جیل میں قلم بند کیاتھا۔ مصنف نے اس کتاب کا انتساب اپنے مرحوم والد محترم جید عالم دین مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے کیا ہے۔پیش لفظ اور بعد میں شامل تبصرہ مضامین کو چھوڑ کر سلاخوں کے پیچھے کی زندگی پر 24 مضامین شامل ہیں۔ یہ کتاب قارئین کی توجہ کا مستحق ہے۔

رودادِ قفس دراصل ندائے ملت اخبار میں 26 اپریل 1966 کو جیل سے رہائی کے بعد قسط وار شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔ جس کا پہلا اڈیشن سال 2000 میں شائع ہواتھا۔ ہمارے ہاتھ میں اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ اس کتاب کی تخلیق 1965 کے واقعات سے جڑی ہوئی ہے۔ اُن دنوں لال بہادر شاستری نے ملک میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ ان کی کابینہ کے ایک وزیر، کریم بھائی چھاگلہ، جو اتفاق سے وزیر تعلیم کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، کو ایک نام نہاد مسلم سیکولر وزیر مانا جاتا تھا۔ ذاتی مفادات کے تحت اور اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے چھاگلہ نے 20 مئی 1965 کو ایک آرڈیننس پاس کرنے کا منصوبہ بنایا جس کا مقصد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لفظ”مسلم“ کو ہٹانا تھا۔ اس گھناؤنے فیصلے کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

حفیظ نعمانی(پرنٹرپبلشر ہفت روزہ ندائے ملت، لکھنؤ)، ڈاکٹر محمد آصف قدوائی(اڈیٹر ہفت روزہ ندائے ملت، لکھنؤ)، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (بانی اڈیٹر ہفت روزہ ندائے ملت، لکھنؤ)اور ڈاکٹر محمد اشتیاق قریشی سمجھدار ذہن کے مالک تھے، اس قدم کے طویل مدتی منفی نتائج کو ندائے ملت نے جلد سمجھ لیا۔ چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف سازش کرنے والوں کواور ان کے مذموم منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے روکنے کا عزم کرتے ہوئے، انہوں نے زار شاہی حکومت اور اس کے نااہل وزیر تعلیم کی بداعمالیوں کو بے نقاب کرنے کا عزم کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے وقف کردہ ندائے ملت اخبار کا ایک خصوصی ایڈیشن (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نمبر)شائع کیا جائے گا، جس کی کاپیاں لکھنؤ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے آئندہ کنونشن کے دوران تقسیم کی جائیں گی۔ پرچہ چھپا اور اس کے بعد جو کچھ ہونا تھا وہ سب کچھ ہوا، اخبار اور اس کے کارکنان حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے، خود مصنف کو اس کی پاداش میں ۹/ماہ جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

یہ کتاب اسی کی روداد ہے جسے پڑھتے ہوئے حکومت کی سفاکی، جیل انتظامیہ کے ظلم و جبر اور ایک قلم کار کے عزیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب 168 صفحات پر محیط ہے جسے تنویر پریس لکھنؤ نے شائع کیا ہے۔