!!رنگوں میں سوچنے والی لڑکی

By- Nayyer Mustafa

پہلی بار جب سویرا نے علی کو بتایا کہ وہ رنگوں میں سوچتی اور محسوس کرتی ہے تَو وہ کافی دیر تک ہنستا رہا۔

”اچھا جی!…یعنی آپ جناب کو روتے ہوئے نیلا رنگ نظر آتا ہے!… موتیے کی خوشبو ڈارک گرین ہوتی ہے!…اور چیئرمین صاحب کے چاروں طرف سفید رنگ کا دائرہ سا بن جاتا ہے!ہاہاہاہاہا“

”ایک بات تَو بتا موٹو؟“ علی نے بہ مشکل اپنی ہنسی کو بریک لگاتے ہوئے کہا۔

”میں نہیں بتاتی گندے لڑکے!…تم مذاق اُڑاتے ہو۔“ سویرا بچوں کی طرح ٹھنک کر بولی۔

”اچھا یہ لو! …میں نے ہونٹوں پہ اُنگلی رکھ لی!…اب ایک لفظ بھی نہیں بولوں گا!…بس اِتنا بتا دو کہ میرا بھی کوئی رنگ ہے یا نہیں؟“ علی نے شودوں جیسا منہ بنالیا۔

”اورنج!“

”اورنج؟ …جیسے مرنڈا؟“

”ہاں کچھ ویسا ہی،مگر تھوڑا کڑوا!… ویسے یہ اورنج کلر والے لوگ عام طور پر بڑے بے وفا ہوتے ہیں۔“ سویرا کی آنکھیں ایک دم سے شرارتی ہو گئیں۔

”چل موٹی!…تیرے رنگوں کی تَو ایسی کی تیسی۔“ علی نے منہ سے ٹافی نکالی اور اُس کی ناک پہ دے ماری۔

”جی نہیں!…رنگ ہمیشہ سچ بولتے ہیں!…کچھ سمجھ میں آیا مسٹر علی!“سویرا کافی دیر تک اُس کے جھوٹ موٹ کے غصے کو انجوائے کرتی رہی۔

اُس دن کے بعد سویرا کی جھجک دُور ہو گئی اور وہ علی سے یہ ساری باتیں شیئر کرنے لگی۔اکثر وہ اُسے بتاتی کہ شاہ رخ خان کی آواز میرون ہے اور سردی کی بارشوں کا رنگ فالسے جیسا ہوتا ہے۔اُسے پورا یقین تھا کہ پیراسیٹامول معدے میں جانے کے بعد گلابی ہو جاتی ہے اور کشمیری چائے سے اُٹھتی بھاپ بالکل بھی سبز نہیں ہوتی۔ وہ راک میوزک سے نفرت کرتی تھی کیونکہ اُس کا خیال تھا پیلے رنگ کی آوازیں ڈیپریشن پیدا کرتی ہیں۔اُسے لڑکیوں پر فحش جملے کسنے والے مردوں کے آس پاس سرمئی رنگ کے بلبلے پھوٹتے نظر آتے اور وہ بیمارلوگوں کو اُن کی آواز کی زرداہٹ سے پہچان لیتی۔ وہ ہمیشہ بڑے وثوق سے کہتی کہ تیز ہوا کا شور ڈارک بلیک اور بچوں کی ہنسی آف وائٹ ہوتی ہے۔ اُس کا ماننا تھا کہ خاموشی اور اندھیرے کا ایک ہی رنگ ہے اورجب تک وہ یہ بات منوا نہ لیتی اُسے چین نہ پڑتا۔

اگرچہ علی کو یہ ساری باتیں سمجھ نہ آتیں مگر چونکہ وہ سویرا سے پیار کرتا تھا اِس لیے اِنہیں دلچسپی سے سنتا اور حیران ہونے کی اداکاری کرتا رہتا۔ سویرا بھی علی کو بہت ٹوٹ کر چاہتی تھی اور اُس کی کسی خواہش کو ردنہیں کرتی تھی۔ وہ جب بھی اُس کا ہاتھ تھامتا اُسے اپنے چاروں طرف سبز رنگ کی پھواریں سی گرتی محسوس ہوتیں۔ پھر اُسے یوں لگتا جیسے اُس کا بدن جنگلی گلابوں کی مہکار سے سنسنا اٹھا ہو اور وہ اندر تک سرشار ہوجاتی۔

وقت اِتنی تیزی سے گزرا کہ پتا ہی نہیں چل پایا کب دو سال مکمل ہوئے اور اُن کا سیشن ختم ہونے کا وقت آپہنچا۔

”اُداسی کا رنگ بالکل سمندر کی طرح ہوتا ہے!…… گہرا نیلا۔“ سویرا نے لیکچر تھیٹر پر آخری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔

”ایک نہ ایک دن تَوہر چیز نے ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔“ علی کی آواز میں کچھ ایسا کرب تھا کہ سویرا کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔

”میرے لیے ایک تصویر بنا سکتی ہو؟“ علی نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا۔

”بنا سکی تَوضرور۔“

”ٹھیک ہے تَوپھر سنو!…ایک سایہ ہو!…بالکل دھندلاسا!… اِتنا کہ فیچرز کے بارے میں کچھ بھی اندازہ نہ ہو پائے!…بس اُس کی آنکھیں اور ہونٹ دکھائی دیں۔“

”یہ تَوبہت ہی آسان ہے۔“ سویرا نے مسکرانے کی کوشش کی۔

”ہاں!……لیکن بات بھی تَوابھی ادھوری ہے۔‘‘ علی کا لہجہ تھوڑا پراسرار ہوگیا۔

سویرا نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا۔

”جب تم اپنے ہونٹوں سے اِن پرکسِ کا نشان بناؤ گی تب ہی یہ تصویر مکمل ہوگی۔ مگر لپ اسٹک گلابی رنگ کی ہونی چاہیے۔“

سویرا کو یوں لگا جیسے کسی نے اُس کے ہاتھ میں دھنک تھما دی ہو۔

”پھر یہ تصویر ہم اپنے بیڈروم میں لگائیں گے!……ٹھیک ہے نا؟“

سویرا کی آنکھیں شرم کے بوجھ تلے دبتی چلی گئیں۔

”میرا انتظار کرنا موٹو!میں بہت جلد واپس آؤں گا۔“علی نے پوائنٹ پرسوار ہوتے ہوئے کہا۔

سویرا نے اُس کا بہت انتظار کیا مگر وہ نہیں آیا۔شروع میں انتظار کا رنگ گہرا سرخ تھا۔ اُن دنوں علی اُسے خوب لمبی کالز کرتا اور اپنے فیوچر پروگرام ڈسکس کرتا۔ پھر انتظار کا رنگ زرد ہوگیا۔علی اُسے ہفتوں بعد فون ملاتا تَو سارا الزام مصروفیت کے سرتھوپ کر بری الذمہ ہوجاتا۔کچھ عرصے بعد علی نے اپنے سارے نمبر تبدیل کرلیے اور انتظار کا رنگ سیاہ پڑ گیا ____اِتنا سیاہ،کہ سویرا اس کی دہشت سے کانپ اُٹھی،اور اُس نے شادی سے انکار کے بجائے خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھا۔

اُس کا خاوند ایک اُبھرتا ہوا چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ تھا اور بالکل ویسا تھا جیسا ایک چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کو ہونا چاہیے۔ وہ حساب کی زبان میں سوچتا تھا اور اُسے رنگ بالکل پسند نہیں تھے اِس لیے وہ سویرا کو بھی ایسے ہی ٹریٹ کرتا جیسے وہ کسی فرم کے آڈٹ کو ٹریٹ کرتا تھا۔اگرچہ وہ راک میوزک کی طرح پیلا اور بدبودار آدمی تھا مگر اِس کے باوجود سویرا اپنے شوہر سے نفرت نہیں کرتی تھی بلکہ اُس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتی اور اُس کی کسی خواہش کو ردنہ کرتی۔ اُس نے ٹائی کی ناٹ باندھنا سیکھ لی تھی حالانکہ اُسے ٹائی کی ناٹ باندھنے سے بہت کوفت ہوتی تھی اور اب وہ گندے موزے بغیر کسی پریشانی کے دھو لیتی۔

ایک روز،جب وہ اپنے پرانے سامان کو کھنگال رہی تھی تو اُسے واٹر کلر سے بنی ایک تصویر نظر آئی جس کے رنگ تھوڑے دھیمے پڑگئے تھے۔اُس نے اچھی طرح سے تصویر کی گرد جھاڑی،لپ اسٹک کے نشان مٹائے اور چھوٹے چھوٹے قدم لیتی آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔وہ کافی دیر تک اپنا سراپا دیکھتی اور کچھ ڈھونڈتی رہی۔اُسے یہ دیکھ کر زیادہ حیرت نہ ہوئی کہ رنگوں میں سوچنے والی لڑکی کا اپنا کوئی رنگ نہیں تھا۔

4444

18 Comments

Like

Comment

Share