!!دکن کا درویش صفت بادشاہ

تحریر :سید اعجاز شاہین

دکن کا درویش صفت بادشاہ

آصف سابع اعلی ٰ حضرت نواب میرعثمان علی خان

تحریر :سید اعجاز شاہین

اعلیٰ حضرت نے پہلی فائل دیکھی۔رضائی کے لیے شہر کے تاجروں کے ہاں سے quotations آئےتھے۔ فرمایا یہ تو بہت مہنگے ہیں۔ ،اس برس نئی رضائی خریدنے کی تجویز موقوف، وہی پرانی رضائی کی مرمت کروا دی جائے۔آئندہ برس نئی خریدی جاۓگے۔

دوسری فائل ،جامع مسجد دہلی سے درخواست آئی ہے کہ مسجد کا ایک چوتھائی فرش ٹوٹ گیا ہے۔اس کو بدلوانے کےلیے ایک لاکھ روپئے کی حاجت ہے۔اعلیٰ حضرت نے فوراً منظوری دے دی۔سکریٹری فائلیں اٹھاکر دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ واپس بلوایا۔فرمایا ایک چوتھائی فرش نیا اور باقی پرانا،یوں اچھا نہیں لگے گا۔سارا فرش نیا ہونا چاہیے۔ جامع مسجد دہلی کے لیے فرمانِ شاہی جاری ہوا کہ ایک لاکھ نہیں بلکہ چار لاکھ روپئے بھیجے جائیں ۔

اعلی ٰ حضرت نواب میرعثمان علی خان کی یہ فیاضیاں صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھیں۔ فرماتے تھے ہندو اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں۔ ا نھوں نے تلگو اکادمی کو ایک خطیر رقم دی تھی کہ دکن میں ہندو مذہب کی عمارتوں کے بارے تحقیقی کام کریں۔۱۹۳۲ کی بات ہے۔بھنڈارکر ا نسٹیوٹ،پونا جو ہندو مذہبی ادارہ تھا، مالی مسائل کا شکار ہوا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر اعلی ٰ حضرت نواب میرعثمان علی خان سے درخواست کی گئی کہ مہمان خانےکی تعمیر اور ہندؤوں کی مذہبی کتاب مہا بھارت کی اشاعت کے لیے مالی مدد کی جاۓ۔اعلیٰ حضرت نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر فرمان جاری کروایا کہ ماہانہ ایک ہزار روپے اور تعمیری کام کے لیے پانچ ہزار روپۓ فی الفور جاری کیے جائیں۔ اس زمانے میں یہ رقم آج کے کئی کروڑ کے برابر تھی۔ نظام نے جہاں دارلعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نوازا وہیں بنارس ہندو یونیورسٹی کو بھی عطایا دیے۔یاد رہے کہ دیوبند،دلی ،علی گڑھ ،بنارس اور پونا، یہ سب شہر ریاستِ حیدرآباد کا حصہ تک نہیں تھے۔

اعلیٰ حضرت کی فراخ دلانہ سر پرستی حاصل نہ ہوتی تو مولانا سلیمان علی ندوی سیرت النبی کا کام کر سکتے تھے نہ مارما ڈیوک پکتھال انگریزی میں قرآنِ پاک کا اولین ترجمہ کر سکتے تھے۔ریاستِ حیدرآباد کی سرکاری زبان اردو تھی۔سارےسرکاری محکموں کے کام اُردو میں انجام پاتے تھے۔ ریاست ِ حیدرآباد سے پہلے اور اسکے بعد،آج تک برصغیر کی کسی اور ریاست نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا۔حتیٰ کہ پاکستان نے بھی نہیں۔ اگراعلیٰ حضرت کی سرپرستی نہ ہوتی تھی تو باباۓ اردو مولوی عبدالحق بھلا اردو کے لیے کوئی کام کرسکتے تھے؟ عثمانیہ یونیورسٹی ملک کی پہلی یونیورسٹی تھی جہاں تمام شعبہ جات میں اعلی ترین سطح تک کا ذریعۂ تعلیم اُردو تھا۔ ڈاکٹر حمیدا للہ مرحوم کے مطابق یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔فرنگی ریسیڈنٹ کو کسی طور گوارہ نہیں تھا کہ جدید علوم ایک “کالی” زبان میں پڑھاے جائیں۔دارالترجمہ عثمانیہ نے کثیر تعداد میں مختلف زبانوں کی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔ میر عثمان علی خاں نے ۱۲کروڑ روپۓ تو صرف اردو انگریزی لغت کے پروجیکٹ کے لیے منظور کیے تھے۔ ۔اب بھی کئی ایسے بزرگ حیات ہیں جنھوں نے مڈیکل ،انجینٔرنگ اور قانون کی اعلیٰ تعلیم جامعہ عثمانیہ سے اردو میں حاصل کی۔

فلسطین میں جب پہلی یونیورسٹی قائم ہو رہی تھی تو اس کے لیے سرمایہ اعلی ٰ حضرت نواب میرعثمان علی خان نے فراہم کیا۔اور تو اور اسوقت کی مشہور فرنگی ریاستوں کے ادارے بھی نظام کےحضور کشکولِ گدائی لیے آتےتھے۔ معروف تاریخ دا ں ڈاکٹر داؤد اشرف نے لکھا ہے کہ لندن کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز،ہالینڈ کی لیڈین یونیورسٹی،ڈرہیم کی نیو کیسل یونیورسٹی وغیرہ کو ریاستِ حیدرآباد سے باقاعدہ مالی امداد جایا کرتی تھی۔ہندوستان میں مخطوطات کے لیے تین کتب خانے مشہور ہیں۔ رامپور کی رضا لائبریری،پٹنہ کی خدا بخش لائبریری،اور حیدرآباد کا کتب خانہ آصفیہ۔ ان تینوں میں شان و شکوہ کے لحاظ سےکتب خانہ آصفیہ کی بات ہی اور ہے۔

اعلی ٰ حضرت نواب میرعثمان علی خان نے ریاست کے بجٹ میں تعلیم کے فروغ کے لیے ۱۱فیصد حصہ رکھا تھا۔ جی ہاں ۱۱ فیصد۔اور یہ پوری دیانت داری سے خرچ کیا جاتا تھا۔تعلیم کے لیے ۱۱ فیصد آج تک نہ ہندوستان میں کسی حکومت نے رکھا نہ پاکستان میں۔اسی لئے انھیں سلطان العلوم بھی کہا جاتا ہے۔

ریاست حیدرآباد اپنے اداروں اور انفرا اسٹرکچر کے لحاظ سے ایک مکمل ، خود مکتفی اور خوشحال ریاست تھی۔رقبہ میں کم و بیش آج کے برطانیہ کے برابر۔آج بھی ہائی کورٹ، آرٹس کالج، آصفیہ لائبریری ،دواخانہ عثمانیہ،یونانی شفاخانہ ، حیدرآباد میوزیم،اسمبلی ہال ،جوبلی ہال کی پر شکوہ عمارتیں دیکھنے والوں کو حیدرآباد اور سلطنت آصفیہ کی عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔یہ عمارات ان دنوں آثار قدیمہ نہیں بلکہ صحیح سلامت ہیں اور زیر استعمال ہیں۔

نواب میرعثمان علی خان اپنے عہد میں دنیا کے امیر ترین فرد تھے۔ اس قدر کہ بر طانیہ کے شاہی خاندان نے ان سے قرض مانگا تھا،اور لے کر ڈبو دیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد حالت یہ تھی کہ نو زائدہ مملکت کا خزانہ بالکل خالی تھا۔حکومت کے ملازمین کی تنخواہ دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ایسے میں اعلی ٰ حضرت نواب میرعثمان علی خان نے ۲۰ کروڑ روپۓ پاکستان کے لیے بھیجے۔جس سے پاکستان کے اسٹیٹ بینک کی بنیاد پڑی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تقسیم کرنا ممکن ہوا۔ہوش بلگرامی نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ نواب میرعثمان علی خان محرم کی مجلس سننے عزا خانہ زہرا میں تشریف لاۓ تھے۔ اس دن وہاں ایران سے ایک اہم شخصیت بھی آئی ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ سادہ سے لباس اور عام سی وضع قطع میں ایک شخص ہے اور سارے شرکاے مجلس ہیں کہ اس کا بے حد ادب و احترام کر رہے ہیں۔ اس نے اپنے ساتھی سے پوچھا،یہ کون صاحب ہیں۔ جواب ملا، یہ شاہِ دکن ہیں۔ بے اختیار بول اٹھا” شاہِ دکن؟ پناہ بخدا !” اس نے شاہِ ایران کے طمطراق دیکھے تھے۔فرماں رواے دکن کو اتنی سادہ وضع قطع میں دیکھ کر وہ تو چکراگیا۔

۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ کو فوجی کاروائی کے ذریعہ ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کر لیا گیا۔ہر سال ۱۷ ستمبر کو کچھ حلقے تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔تقاریرمیں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ مگر جو بات قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے نواب میرعثمان علی خان کی برائی کوئی نہیں کرتا۔کرنے کے لیے کچھ ہو تو کرے بھی۔آصفِ سابع اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خاں بہادرنظام الملک سلطان دکن ۲۴ فروری ۱۹۶۷ عیسوی کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالی ٰ ان کے اچھے کاموں کا انھیں اجر دے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ کہتے ہیں کہ ابرصغیر کی تاریخ میں سب یہ سب سے بڑا جلوس جنازہ تھا۔چاروں طرف تا حدنظر غمزدہ عوام کا ایک سمندر تھا۔

اہل دکن ان کا نام اب بھی بڑی محبت اور عقیدت سے لیتے ہیں انھیں اعلیٰ حضرت یا حضور نظام یا عثمان پاشا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔مسلمان تو مسلمان میں نے ہندو بزرگوں کو دیکھا ہے جو آصفِ سابع اور ان کے عہد کو یاد کرکے جذباتی ہو جاتے تھے۔