خدائے سخن میر تقی میر
خدائے سخن میر تقی میر{ آمد : 28مئی 1723۔ رخصت :22 ستمبر1810}کی معدوم قبر :ایک تہذیبی عبرت کی علامت :::{ “نشان میر” }
تہذیبی زبان اور میراث کی زبان۔ میر تقی میر کا نشان ناپید ہوگیا۔
لکھنؤ میں میر کی قبر اور قبرستان اب صرف تاریخ کا حصہ رہ گئے ہیں۔ مؤرخین اور مداحوں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں کے زمانے میں اس پر ریل کی پٹری بچھا دی گئی تھی۔ ایک خاتوں صفوی، جن کی پرورش 1960 کی دہائی میں لکھنؤ میں ہوئی، ان کا کہنا ہے کہ ان کا گھر ان ہی ریل کی پٹریوں کے سامنے تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پٹری کے کنارے وہاں ایک دروازہ ہوا کرتا تھا، جسے بڑے بزرگ کہتے تھے کہ وہاں میر کی قبر ہوا کرتی تھی۔”
آج وہاں سے کچھ قدم دور میر کے نام سے ’نشان میر‘ نامی ایک علامتی ڈھانچہ ہے اور اس کا بھی حال بُرا ہے۔ لکھنؤ میں مقیم داستان گو ہمانشو باجپائی بتاتے ہیں کہ میر کی قبر کی ممکنہ جگہ سے وہ اکثر گزرتے ہیں اور اب وہاں ’صرف گندگی ہے، بلکہ اس پر بھی لوگوں کا بلااجازت قبضہ ہے”۔ یہاں کتے بلیاں گھومتی نظر آتی ہیں۔ جو اردو کی تہذیب پر ایک بھرپور طمانچہ ہے۔ جس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہاں کی مقامی بلدیاتی انتنظامیہ کو علم نہیں معلوم کہ یہ میر تقی میر کا سنگ یادگار ان کے شہر ہی کی نہیں بلکہ پا ک و ہند کی کی تہذیب علامت ، شناخت اور شان ہے۔اس کی دیواریں چکٹ ہیں جس پر فضائی آلودگی کے سبب سیاہ
تہہ جم گئی ہے۔اس سلسلے میں قومی ، ریاستی اور مقامی ثقافتی ورثے کے تحفظ کے ادارے ،لکھنو کی اردو کی اکادمیان اور اردو کے فروغ سے جڑے ہوئے ادارے کیوں اغماّض برتے ہیں۔ اس پر آوازا اٹھائی جائے۔{احمد سہیل} :::