!!حمیدہ شاہین کی غزلیں

اُگتے ہوئے نہ روند ، لگے مت خراب کر

تو زرد ہے تو سب کے ہَرے مت خراب کر

اپنی کڑی سے کاٹ خرابی کا سلسلہ

پہلے ہوئے نبیڑ ، نئے مت خراب کر

جو جس مقام پر ہے اُسے بے سبب نہ چھیڑ

بکھرے ہوئے سمیٹ ، پڑے مت خراب کر

چھُونے کے بھی اصول ہیں ، ہر شاخ کو نہ چھُو

چھدرے تو منتظر ہیں ، گھنے مت خراب کر

جو فطرتاً خراب ہیں ان کا تو حل نہیں

جو ٹھیک مل گئے ہیں تجھے مت خراب کر

بے لمس پھلتے پھولتے خود رَو کو مت اکھیڑ

جو بات خود بخود ہی بنے مت خراب کر

تیرے خراب کردہ بہت ہیں دلِ خراب

اتنا بھلا تو کر کہ بھلے مت خراب کر

اب سلوٹوں سمیت پہن یا سمیٹ دے

تجھ سے کہا بھی تھا کہ مجھے مت خراب کر

بے لطف زندگی بھی خرابی ہے سر بسر

واجب خرابیوں کے مزے مت خراب کر

اتنا نہ کر دراز خرابی کا سلسلہ

اک شے کو دوسری کے لیے مت خراب کر

وہ خود خراب کرنے پہ کرتا ہے مشتعل

جو روز بار بار کہے مت خراب کر

—— 2 ———

ہم غیر سمجھتے اُسے ایسا بھی نہیں خیر

لیکن وہ کسی کا نہیں اپنا بھی نہیں خیر

جو سوچتے رہتے ہیں وہ کرنا نہیں ممکن

کرنے کے ارادے سے تو سوچا بھی نہیں خیر

کچھ بن کے دکھانے کی تمنا کا بنا کیا

اتنی سی تمنا میں تو بنتا بھی نہیں خیر

ہم اس کے لیے اپنی نظر میں برے ٹھہریں

اچھا ہے وہ اچھا بھئی اتنا بھی نہیں خیر

کچھ سینت کے رکھنے کا ہمیں شوق نہیں تھا

کچھ سینت کے رکھنے کے لیے تھا بھی نہیں خیر

اس شخص پہ تنہائی تو اترے گی بلا کی

جو ہے بھی نہیں خیر ، جو لگتا بھی نہیں خیر

سب خیر ہو سب خیر ہو اے مجمع ظاہر

ہم بھیڑ کا حصہ نہیں تنہا بھی نہیں خیر

یہ خیر فقط لفظ نہیں فہم و یقیں ہے

جو خیر سمجھتا نہیں ہوتا بھی نہیں خیر

—— 3 ———-

کچھ بن کے دکھانے کی تمنا کا بنا کیا؟

اتنی سی تمنا میں تو بنتا بھی نہیں، خیر

کچھ سینت کے رکھنے کا ہمیں شوق نہیں تھا

کچھ سینت کے رکھنے کے لیے تھا بھی نہیں، خیر

گو ایک اذیت ہے ترا رنگ تغافل

یہ رنگ کسی اور پہ سجتا بھی نہیں، خیر

جو سوچتے رہتے ہیں وہ کرنا نہیں ممکن

کرنے کے ارادے سے تو سوچا بھی نہیں، خیر

شہرا ہے کہ رسوائی کی تصدیق ہے وہ شخص

شہرت کا بھروسہ کوئی ہوتا بھی نہیں، خیر

سب خیر ہو سب خیر ہو اے مجمعِ ظاہر

ہم بھیڑ کا حصہ نہیں تنہا بھی نہیں، خیر

—— 4 ————–

کب چھپائے چھپ سکا ہے خون میں اترا نمک

ہے سراپا آئنہ اچھا نسب ، اچھا نمک

خواہشوں کو معتدل رکھّا محبت نے سدا

جب جہاں چاہا وہیں دل کھول کر چھڑکا نمک

تلخ لہجوں کا کبھی ہم نے برا مانا نہیں

زخم ایسے تھے ہمارے جن کا مرہم تھا نمک

اس کے لہجے میں سمٹ آتے ہیں کیا کیا ذائقے

ہم نے کب دیکھا تھا ایسا شہد اور ایسا نمک

درد کا چھینٹا پڑا ، دھل کر نکھر آئے نقوش

آنکھ بھر آئی تو چہرے پر بہت آیا نمک

بے وفا نکلے جنھیں تھی لقمہءتر کی تلاش

وہ کہاں جاتے جنھیں درکار تھا تیرا نمک

کیسے کیسے خوش بیانوں پر گواہی بوجھ تھی

منہ میں پتھر ہو گیا ہوگا غلط کھایا نمک

اس کو دنیا کا کوئی دیدار بھائے گا کہاں

جس کی آنکھوں نے چکھا ہو تیرے چہرے کا نمک

بے تحاشا خوش گمانی سوچنے دیتی نہیں

زہر تھا جس کو سمجھ داروں نے بھی سمجھا نمک

ہم پہ یہ شیریں کلامی اس لیے بھی فرض ہے

ہر کسی کو پیش ہم کرتے نہیں اپنا نمک