!!بےنام گیلانی کی غزلیں

ہم سوچتے ہیں بارہا ہی خوش دلی کے ساتھ

دو چار روز رہتے خدا کے ولی کے ساتھ

اک خوف ہے جو آنکھ کی نیندیں چرائے ہے

قائم ہوا جو رختہ کسی اجنبی کے ساتھ

پھر کیوں کسی کو خوف ستم ہائے بخت ہو

عادل خدا کا نام ہے مومن غنی کے ساتھ

اس دل کی کیفیت کوئی سمجھےگا کس طرح

رونا کسی نے دیکھا نہیں ہے ہنسی کے ساتھ

گلشن میں پھونک پھونک کے رکھئے ہر اک قدم

کانٹوں کا اژدہام ہے کچی کلی کے ساتھ

حق ہے کہ روئے ارض پر روز ازل سے لوگ

مجبور جینے کو ہیں بڑی بےکسی کے ساتھ

بےنام اس حسین سے جا کے یہ بول دو

جاتے ہیں اس کی بزم سے ہم برہمی کے ساتھ

             —— 2 ——

دل کسی شوخ کی یادوں سے جو آباد نہیں

ایک مدت سے یہ بےنام ذرا شاد نہیں

سیم و زر مال و متاع کی ہے خدائی اس پر

کون کہتا ہے کہ وہ مائل الحاد نہیں

بستیاں روز اجڑتی ہیں بشر کے ہاتھوں

اب نیا شہر مگر ہوتا ہے آباد نہیں 

اک زمانہ تھا ستمگر وہ ہوا کرتا تھا

صید مظلوم ہے اب حسن بھی صیاد نہیں

لوٹ لیتے ہیں گداگر کو بھی اہل ثروت

دست انسان کوئی حامل امداد نہیں

ہر قدم پر ہے ارم کا حسیں منظر دیکھو

کون کہتا ہے مرے عہد میں شداد نہیں

ساری امید کے باغات ہوئے ہیں خاشاک

“اب کسی بات کا طالب دل ناشاد نہیں”

          ——- 3 —–

ماتھے پہ اپنے انکی سی چادر لئے ہوئے

آتا ہے کوئی کوچے کو خنجر لئے ہوئے

دیوانہ کہ کے لوگ ہمیں دیتے ہیں صدا

چلتے ہیں ہم جو فکر کا دفتر لئے ہوئے

سنتے ہیں آستیں میں سلسلے بھی ہیں نہاں

ہتھوں میں ہیں گلاب برادر لئے ہوئے

کیا کیا نہ امتحان سے گزرے جو آئے تھے

پیغام ایزدی وہ پیمبر لئے ہوئے

گزرا تھا اپنے لب پہ کسی روز دلربا

پیغام اتحاد قلندر لئے ہوئے

مسرور جو ہے آپ کو شاید پتہ نہیں

کس کس طرح کا درد ہے اندر لئے ہوئے

خاکے ہزار بت کے لئے پھرتا ہے بےنام

اپنے تصورات میں آذر لئے ہوئے

          —–4 —–

نیلام پر ہے مادر و دختر کی آبرو

بازار میں ہے دیکھئے گھر گھر کی آبرو

فاقہ کشی میں بھی ہے محبت ضمیر سے

اللہ رکھ رہا ہے گداگر کی آبرو

کیا منظر حسین ہے نظروں کے سامنے

اک جھیل رکھ رہی ہے سمندر کی آبرو

اے کاش مومنو کو سمجھ آئے میری بات

امت کے ہاتھ میں ہے پیمبر کی آبرو

گلچیں کی اب شکایت بیجا نہ کیجئے

خود باغباںں نے بیچا گل تر کی آبرو

بکتی ہے دفتروں میں کھلے عام دیکھئے

دو کوڑیوں میں شان سے افسر کی آبرو

پر کیف اب نہیں ہے مئے ناب بھی یہاں

ساقی بچا لے مینا و ساغر کی آبرو

وہ بھی تو زنگ خوردہ ہے مدت سے آج تک

پنہاں ہے تیز دھار میں خنجر کی آبرو

دین متیں کو ابدیت حاصل ہوئی وہاں

کربل میں رب نے رکھ لی بہتر کی آبرو

                     — 5 —

حسرتیں کئی لےکر اپنی ان نگاہوں میں 

کب سے آ کے بیٹھا ہوں آپ کی پناہوں میں

قصر جبر کی لوگو پھر اساس ہلتی ہے

کچھ اثر تو باقی ہے مفلسوں کی آہوں میں

اس نزع کے عام میں کیونکہ ہے پشیمانی

آہ جبکہ گزرے ہیں روز و شب گناہوں میں

فاصلے رہیں قائم درمیان دونوں کے

اک چبھن سی ہوتی ہے ان گداز باہوں میں

سنگزار آئیں گے خارزار آئیں گے

“ساتھ ساتھ چلنا تم زندگی کی راہوں میں”

ساقیا جو میں نے اب ترک نام کر ڈالا

جانے کیسی ہلچل ہے میرے خیر خواہوں میں

ذکر و فکر کی رسمیں اب وہاں نہیں باقی

فسق کے مناظر ہیں آج خانقاہوں میں

بےنام گیلانی،کٹرہ باغ،نئی سرائے،بہار شریف

ضلع۔   نالندی803101

رابطہ 9128718109