!!ایک کپ چائے
تحریر: سید کامی شاہ، کراچی۔پاکستان
ایک کپ چائے
گھر میں داخل ہوا تو بیٹی نے دیکھتے ہی بابا، بابا کی رٹ لگادی۔
میں نے اسے گود میں اٹھا کر پیار کیا۔
جی جان پیاری، آگئے بابا۔۔۔۔
اسے گود میں اٹھائے ہوئے اماں کے کمرے کی طرف بڑھا۔
السلام علیکم ماں۔۔۔ کیا حال ہیں، کیسا رہا دن؟
وعلیکم سلام۔۔۔ بہت شرارتی ہوگئی ہے تمہاری ٹوٹو۔۔۔ خود ہی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی آج، میں نے بھاگ کر پکڑا۔۔ گلی میں بائکیں اور رکشے آتے جاتے ہیں۔
اماں نے کہا۔۔
ہیں گڑیا، بہت شرارتی ہوگئی ہو تم۔۔۔ کیا کہہ رہی ہیں ددا۔۔۔
میں نے اس کے پھولے پھولے گالوں پر پیار کیا اور
وہ چاء، چاء کرکے کچن کی طرف ہاتھ لہرانے لگی۔۔
ابھی پلاتے ہیں اپنی گڑیا کو چائے،،
میں اسے گود میں لیے ہوئے کچن کی طرف آیا جہاں ایک طرف روز کی طرح پرچ سے ڈھکا ہوا چائے کا کپ رکھا تھا۔ میں نے چائے کا کپ اٹھایا تو وہ ٹھنڈا تھا، ہمارے ہاں شام کی چائے چھ بجے تک بن جاتی ہے اور مجھے دفتر سے آتے آتے ساڑھے چھ، پونے سات ہوجاتے ہیں، یہ روز کا معمول ہے۔ ہاں اس میں فرق صرف یہ پڑا ہے کہ کچھ روز سے ہماری گڑیا چائے شوق سے پینے لگی ہے، اس کی دادی جسے وہ ددا کہتی ہے اپنے کپ سے ایک دو گھونٹ اسے پلادیا کرتی تھیں اور اب اسے چائے کا چسکا لگ چکا تھا، وہ ٹی وی پر بھی کسی کے ہاتھ میں چائے کا کپ دیکھتی تو ہاتھ فضا میں اٹھا کر چاء چاء کی صدائیں لگانے لگتی تھی۔ میں نے اوون میں رکھ کر چائے کو گرم کیا اور بیٹی کو کرسی پر بٹھا کر چائے کا کپ میز پر رکھ دیا۔
ابھی گرم ہے نہ چائے، بابا پلاتے ہیں آپ کو۔۔
میں نے چائے کے کپ میں پھونک ماری تو وہ بھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہونٹ سکیڑ کر پھو پھو کرنے لگی۔ اتنے میں اس کی ماں بھی آ کر دوسری کرسی پر بیٹھ گئی اور دفتر میں گزرے دن کے بارے میں پوچھنے لگی۔
اسے ویکسینشن کے بعد کی میری کیفیات جاننے میں دلچسپی تھی، کیونکہ میں تو ویکسین لگوانا ہی نہیں چاہ رہا تھا، بس دفتری جبر کی وجہ سے لگوانی پڑی تھی۔ جب سے یہ کورونا پھیلا تھا ہر کسی کی زبان پر یہی ایک موضوع تھا۔
بس یار ایسے ہی، عجیب سی طبیعت ہورہی ہے۔
میں نے بے زاری سے جواب دیا اور بسکٹ چائے میں ڈبو کر بیٹی کو کھلاتا رہا۔
دفتر میں ڈھائی گھنٹے لائن میں لگ کر ویکسین لگوائی تھی اور اپنے وقت کے اس زیاں پر مجھے شدید غصہ تھا اور دوسری بات یہ کہ جب سے یہ کورونا پھیلا تھا اس کے بارے میں کئی طرح کی باتیں سامنے آرہی تھیں، کسی نے کہا کہ دنیا سے آبادی کم کرنے کی سازش ہے، کسی نے کہا امریکا کے خلاف چین کا بائیولوجیک ہتھیار ہے جس کا مختلف طریقوں سے تجربہ کیا جارہا ہے کہ اپنی حتمی شکل میں یہ ہتھیار کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے، کسی نے کہا فائیوجی کمیونیکیشن کے ریڈیائی ردِ عمل کے نتیجے میں یہ وائرس پیدا ہوا ہے، الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
میری ایم بی اے پاس بیوی کے پاس اس حوالے سے اپنی ہی منطق تھی کہ چینی لوگ گندے مندے جانوروں تک کو کھاجاتے ہیں اس لیے خدا نے ان پر یہ عذاب نازل کیا ہے جبکہ ان پڑھ اماں جو دنیا داری کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھیں ان کا خیال تھا کہ موت کے سو بہانے ہیں جو جاندار دنیا میں آیا ہے اسے یہاں سے جانا بھی، لہٰذا اس کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا سے کوئی بھی فرد زندہ نہیں گیا ہر کسی کو اپنی جان یہیں دینی پڑتی ہے۔
یوں تو بیگم سارا دن ہی دفتر میں ہماری خبر رکھتی ہیں کبھی فون پر اور کبھی واٹس ایپ یا ایس ایم ایس کے ذریعے پل پل کی خبر لیتی رہتی ہیں۔ اس دن بھی ویکسینیشن کی لائن میں کھڑے کھڑے ایک ڈیڑھ گھنٹے تک مسلسل اس سے ایس ایم ایس پر بات ہوتی رہی تھی، ویکسین کی پہلی ڈوز اس سے کوئی دو ڈھائی ماہ پہلے لگی تھی اور اس وقت بھی مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، دفتری پالیسی تھی کہ تمام ملازمین کو ویکسین ضرور لگوانی ہے سو بادلِ نخواستہ لگوانی پڑی تھی، کسی بھی بیماری کی ویکسین کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اس بیماری کے جراثیم ویکسین میں شامل کیے جاتے ہیں جو انسان کے جسم میں جا کر ایک مدافعتی نظام پیدا کرتے ہیں جو اس بیماری کے حاوی ہونے کی صورت میں انسانی جسم میں آنے والے ان نئے جراثیم سے لڑتے ہیں اور یوں آدمی بیماری سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ یہ ایک سائنسی بات تھی مگر اس کورونا کے بارے میں میرے دماغ میں شروع سے ہی کچھ تعصبات تھے، جس قسم کی کورونا کی خیالی اشکال ہم سارا دن میڈیا پر دیکھتے تھے وہ خاصی ڈرائونی اور بدشکل تھی اور مجھے لگتا تھا کہ ویکسین لگوانے کی صورت میں یہ گندی شکلوں والے جراثیم میرے بدن میں داخل کئے جائیں گے، مجھ ایسا جمال پسند آدمی یہ بات ہضم نہیں کر پارہا تھا۔ کورونا سے پہلے بھی میں نے ہمیشہ ہی لوگوں کو موت سے ڈرتے دیکھا تھا مگر میرے ساتھ شروع سے ہی ایک عجیب چیز رہی کہ مجھے کبھی موت سے ڈر نہیں لگا بلکہ الٹا ایک طرح کی سرخوشی چھا جاتی تھی کہ آپ اس سے بہتر دنیا میں جائیں گے، بقول میر۔۔
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
کورونا کے چھ آٹھ مہینے تو خیر کسی نہ کسی طرح گزر گئے پھر پاکستان میں ویکسین آگئی اور دھڑا دھڑ لوگ ویکسینیٹ ہونے لگے اس کے ساتھ ساتھ اس کے سائیڈ افیکٹس کی خبریں بھی سارا دن واٹس ایپ، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے سامنے آتی رہتیں، مجھے نہ تو کبھی اس سے ڈر لگا تھا ور نہ میں نے کوئی اضافی حفاظتی اقدامات کیے تھے بس اللہ توکل نظام چل رہا تھا، پھر دفتر کی انتظامیہ نے ایک دن اعلان کیا کہ مقامی حکومت کے کچھ ڈاکٹر اور طبی عملہ دفتر آئے گا اور تمام ملازمین کو ویکسین لگائی جائے گی۔
ہمارا دفتر ایک بہت بڑے میڈیا ہائوس میں واقع ہے اور یہاں کوئی ڈھائی تین ہزار کے قریب لوگ کام کرتے ہیں۔ سو قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے دو گھنٹے لگ گئے اور بالآخر ویکسین لگوا کر ہم نے گھر کی راہ لی۔ ویکسین لگنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مجھے ایک عجیب غلیظ سا احساس ہونے لگا کہ اب کورونا کے جراثیم میرے خون میں شامل ہوگئے ہیں، دفتر سے گھر جاتے ہوئے ہمہ وقت یہی احساس مجھے بے چین کیے رہا اور گھر جاتے ہی میں نے باتھ روم کی راہ لی جہاں دو چار الٹیاں کرنے کے بعد میری طبیعت شدید نڈھال ہوگئی۔
حسبِ معمول شام کی چائے تیار تھی مگر میرا کچھ بھی کھانے پینے کو دل نہں چاہ رہا تھا، چائے کا کپ وہیں رکھے رکھے ٹھنڈا ہوتا رہا۔ ایک عجیب سی کسلمندی اور اکتاہٹ نے میرے ذہن و جسم کو گھیر رکھا تھا اور تھوڑی ہی دیر بعد بخار بھی چڑھ گیا۔ جس کے نتیجے میں اگلے دن دفتر سے چھٹی کرنا پڑی، میرا سارا وقت منہ سر لپیٹے پڑا رہا، دماغ میں عجیب عجیب خیالات آتے رہے۔ بیوی، بیٹی کو لیے دور دور ہی رہی۔
لوگوں کا عام خیال تھا کہ ویکسین کے بعد بخار چڑھنا، جوڑوں میں درد ہونا یا تھکن طاری ہونا نارمل بات ہے اور ایک آدھ دن میں آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔ دو دن بعد دفتر جا کر کولیگز کو کیفیات سے آگاہ کیا تو کئی لوگوں نے تصدیق کی کہ ان کے ساتھ بھی اسی قسم کی ملتی جلتی کیفیات رہیں۔ اس طرح دو ڈھائی ماہ گزر گئے اور ویکسین کی اگلی ڈوز کا وقت آگیا۔
حکومت کی جانب سے کچھ سرکاری ڈاکٹر اور طبی عملہ بڑے بڑے دفاتر میں تعینات کیا گیا تھا تاکہ ان کے ملازمین کو بنا کسی پریشانی کے ویکسینیشن دی جاسکے۔ ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے حکم دیا کہ فوراً جا کر ویکسین لگوائیں تو ہم سبھی لوگ جو اس وقت دفتر میں موجود تھے ایک ایک کرکے میٹنگ ہال کی طرف بڑھنے لگے، وہاں جا کر پتہ چلا کہ قطار تو پہلے ہی کافی لمبی لگ چکی ہے اب اس لائن میں لگنے کا مطلب ہے کہ آپ کے دو ڈھائی گھنٹے یہیں صرف ہوجائیں گے۔ خیر نوکر کیہ تے نخرہ کیہ کے مصداق ہم بھی قطار میں کھڑے ہوگئے اور وقت گزاری کے لیے یونہی موبائل فون پر فیس بک اور واٹس ایپ کے میسیجز دیکھنے لگے۔
ہم سے تھوڑا آگے بابا جی کھڑے تھے ان کی ہم پر نظر پڑی تو پیچھے آ کر ہمارے ساتھ کھڑے ہوگئے، بابا جی اردو جریدے کے سرکولیشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں اور ادب سے وابستگی کی بنا پر ہماری بڑی قدر کرتے ہیں۔ بابا جی خود بھی چند کتابوں کے مصنف ہیں اور جہاندیدہ شخص ہیں۔ کارِ دنیا اور زمان و مکان کے موضوعات پر خوب بولتے ہیں اور دوسروں کی باریک بات سے بھی بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ادھر ادھر کی باتوں، کورونا کی مارا ماری اور سماجیات پر بات کرتے کرتے اچانک بابا جی نے مینارِ پاکستان والے تازہ ترین واقعے کا ذکر چھیڑ دیا جس میں ایک خاتون کے بقول انہیں سیکڑوں افراد نے ناروا سلوک کا نشانہ بنایا تھا۔ مجھے دو ایک دن پہلے ہی کسی نے اس واقعے کی ویڈیو بھیجی تھی جو ابھی تک میرے واٹس ایپ میں ہی پڑی تھی۔ میں نے ویڈیو چلا کر بابا جی کے سامنے کردی۔ آگے پیچھے اور دائیں بائیں کے کچھ اور لوگ بھی ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔
الو کی پٹھی ہے یہ بے وقوف عورت، ڈیڑھ ہوشیار بن رہی تھی لائیکس اور کمنٹس کے چکر میں ذلیل ہوگئی بھرے مجمعے میں۔
بابا جی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ایک نوجوان نے چٹاخ سے تبصرہ داغ دیا۔ اس کے برابر میں کھڑا ایک اور نوجوان بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگا۔ سب کی نظریں اس مختصر دورانیے کی ویڈیو پر جمی ہوئی تھیں جس میں ایک جوان عورت کو مردوں کا ایک گروپ ادھر ادھر سے کھینچ رہا تھا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ملبوس دھجیاں بن کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں بٹ گیا اور وہ چیختی چلاتی، خود کو بچانے کی کوشش میں نیچے بیٹھ کر رونے لگی۔ چیخیں، گالیاں، نعرے اور شور شرابے کی ایک عجیب اور وحشت ناک صورتحال تھی۔
آپ بھی وکٹم بلیمنگ میں یقین رکھتے ہیں۔ میں نے فون بند کرکے جیب میں رکھتے ہوئے مسکرا کر اس سے پوچھا۔
وکٹم بلیمنگ کیا یار، اس احمق کو نہیں پتہ تھا کہ اتنے بڑے مجمعے میں ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
نہیں، اسے نہیں پتہ تھا، عورتیں اتنا دماغ نہیں چلاتیں اور صرف سامنے کی چیزیں ہی دیکھتی ہیں۔
بابا جی نے کہا اور پیچھے مڑ کے دیکھنے لگے، قطار خاصی طویل ہوچکی تھی اور ہمارے آگے کھڑے لوگوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ہماری باری آنے میں ابھی مزید گھنٹہ بھر لگے گا۔
وہ دونوں نوجوان بھی ایسے ہی ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
بابا جی یہ عورتیں اتنی احمق کیوں ہوتی ہیں؟
اسی نوجوان نے سوال کیا۔
احمق تو نہیں کہہ سکتے ہاں یہ ہے کہ عورتوں کے فیصلے اور گفتگو جذباتیت پر مبنی ہوتی ہے جبکہ مرد عقل و دلیل اور منطق کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ یہ فرق خالقِ کائنات نے رکھا ہے اور یہ سارا نظام ایسے ہی ہے۔
بابا جی نے تفصیلی جواب دیا۔
تو پھر یہ برابری کی دعویٰ داری کیا ہے؟
اس نے پوچھا۔
یہ صرف بکواس ہے، انسان تین اصناف میں پیدا ہوتا ہے، عورت، مرد اور ہیجڑا اور یہ تینوں جیسے اپنے جسمانی خدوخال میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح اپنے روحانی اور نفسیاتی معاملات میں بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ کوئی کسی کے جیسا نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔
بابا جی مزید بھی کچھ کہہ رہے تھے مگر میں دھیان نہیں دے پایا کیونکہ اتنے میں میرا فون بجنے لگا، جیب سے نکال کر دیکھا تو بیگم کی کال تھی۔ میں اسے بتا چکا تھا کہ آج دفتر میں ویکسین کی دوسری ڈوز لگے گی تو واپسی پر تاخیر ہوجائے گی، اب شام ہونے کو تھی اور یہ لمبی قطار اس بات کا اشارہ تھی کہ مزید کچھ عرصہ یہاں کھڑا رہنا پڑے گا۔
بیگم نے ایک دو چھوٹی موٹی چیزیں بتائیں جو واپسی پر لے جانی تھیں، میں نے ہوں ہاں کر کے فون بند کردیا۔ ابھی فون جیب میں نہیں رکھا تھا کہ اس کا میسج آگیا۔
آپ کی کیفیت کیسی ہے، ڈپریشن تو نہیں ہورہا ویکسینیشن کو لے کر،،
میں میسج ٹائپ کرنے لگا۔ وہ دونوں نوجوان بابا جی سے عورت مرد کے موضوع پر بات چیت کرتے رہے۔ ان کے تند و تیز سوالات پر بابا جی مسکراتے اور تسلی سے جواب دیتے، مگر وہ نوجوان مطمئن نظر نہیں آتے تھے۔
بیگم کے میسج کا جواب ٹائپ کر ہی رہا تھا کہ اس کا ایک اور میسج آگیا۔ اس میں اس نے کسی رشتے دار کا دوسری ڈوز کے بعد کا تجربہ شیئر کیا تھا۔
میں بابا جی کی گفتگو کو تسلی سے سننا چاہتا تھا کہ وہ بڑے جہاندیدہ اور دانش مند انسان ہیں، انسان، خدا، کائنات اور زمان و مکان کے بارے میں بڑی مزے کی اور منطقی گفتگو کرتے ہیں۔ دفتر میں چونکہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ الگ الگ ہیں تو ان سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوپاتی ہے مگر ہر بار وہ فکر و دانش کے نئے دریچے کھولتے ہیں۔
ایک میسج کا جواب ابھی ٹائپ نہیں کر پاتا تھا کہ بیگم کا دوسرا میسج آجاتا تھا اور میرے نزدیک ان تمام باتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ انسان اپنے ہی تجربے کو سب سے بڑا سچ مانتا ہے اور میرا ویکسین کا پہلا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا تھا۔
بار بار کے میسجز سے مجھے اب کوفت ہونے لگی تھی۔ میرے آگے کھڑے لوگ کچھ سرکے اور قطار کچھ آگے بڑھتی نظر آئی۔
بابا جی دھیمے لہجے اور پُرسکون انداز میں ان نوجوانوں کی باتوں کا جواب دے رہے تھے۔
بالآخر میرا نمبر بھی آہی گیا اور میں دائیں بازو کی آستین چڑھا کر طبی عملے کے سامنے بیٹھ گیا۔ انہوں نے پچھلی ڈوز کے بارے میں ایک دو سوالات کیے، کارڈ چیک کیا اور دوسری ڈوز لگادی۔ میرے بعد بابا جی اور ان دونوجوانوں کا نمبر تھا، میں بابا جی کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتا ہوا باہر نکل آیا۔
باہر شام اچھی خاصی ڈھل چکی تھی اور سڑکوں پر روشنیاں جگمگانے لگی تھیں۔ گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم معمول سے کچھ زیادہ تھا۔ ایک عجیب سی کوفت مجھ پر چھائی ہوئی تھی اور دل کی دھڑکن بھی قدرے بڑھی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ میں نے ایسے ہی بلا ارادہ سگریٹ جلا لیا، اتنے میں ایک چنگچی سامنے آکے رکا تو میں اس میں چڑھ گیا۔ سامنے ایک ہی طرح کی تین موٹی عورتیں ٹھنس ٹھنسا کر بیٹھی ہوئی تھیں، میرے بیٹھتے ہی ایک عورت نے کہا۔
یہ سگریٹ تو بجھادو بھائی،،
میں نے اس کی بات کا جواب دیئے بغیر سگریٹ باہر اچھال دیا اور پہلے سے سیٹ پر بیٹھے دو مروں کے بیچ اپنی ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھ گیا۔
دفتر سے گھر کا راستہ اگرچہ بہت طویل نہیں ہے مگر آج ہر چیز بھاری اور کوفت زدہ محسوس ہورہی تھی۔ وہ تینوں عورتیں جو شاید آپس میں رشتے دار تھیں مسلسل کھسر پھسر کیے جارہی تھیں۔ ایک عورت نے آدھے سوئے آدھے جاگے بچے کو گود میں لے رکھا تھا جس کی آدھی ٹانگیں چنگچی سے باہر لٹک رہی تھیں۔ قریب سے گزرنے والی کوئی بھی گاڑی یا موٹرسائیکل اس سے ٹکرا سکتا تھا مگر اسے کوئی فکر نہیں تھی وہ مسلسل اپنے ساتھ بیٹھی عورتوں کے ساتھ کسی اہم موضوع پر بات چیت کئے جارہی تھی۔ ایک رکشہ نہایت قریب سے گزرا تو بچے کا پائوں اس سے ذرا سا مس ہُوا اور وہ گھبرا کر رونے لگا۔
اے بھائی دیکھ کے نہیں چلا سکتے۔،، اس کے ساتھ بیٹھی عورت نے غرا کر چنگچی کے ڈرائیور سے کہا۔
بچے کو اندر کرلو بہن، پہلے بھی آپ سے کہا تھا۔ چنگچی والے نے عقبی شیشے سے اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر سامنے سڑک پر نظر جمادی، جہاں گاڑیوں اور لوگوں کا اژدھام تھا۔
ہم اندر کرلیں، تم دیکھ کر نہ چلانا رکشہ، اسی عورت نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور دوسری عورت نے بچے کا رخ بدل کر اس کی ٹانگیں اندر کی طرف کردیں۔
اسٹاپ پر اتر کر ایک بار پھر فون چیک کیا کہ کہیں بیگم کو مزید کچھ یاد نہ آگیا ہو، اس کی بتائی ہوئی چیزیں لے کر ڈھیلے قدموں سے چلتا ہوا گھر پہنچا تو بیٹی بابا بابا کرتی ہوئی گود میں چڑھ گئی۔
سامان ٹیبل پر رکھ کر بیگم کو بتایا اور چائے اوون میں گرم کرکے بیٹی کو بسکٹ کھلانے لگا۔ ایک آدھ بسکٹ کھایا تو بالکل اچھا نہیں لگا۔
بیگم کو میری کیفیات جاننے میں دلچسپی تھی اور مجھے اس وقت کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اتنے میں اماں بھی ٹہلتی ہوئی ادھر ہی آگئیں۔ میں چائے ختم کرکے کپڑے بدلنے کے لیے واش روم چلا گیا بیٹی اپنی ماں کی گود میں چڑھ چکی تھی جو ٹشو پیپر سے اس کا منہ پونچھ رہی تھی۔
کھڑے کھڑے کموڈ میں پیشاب کیا تو انتہائی زرد نظر آیا اور عجیب سی دوائیوں والی بُو محسوس ہوئی جیسے کئی دن سے دوائیاں کھاتا رہا ہوں۔ یا تو یہ تازہ تازہ چائے پینے کا اثر تھا یا شاید ویکسین کی وجہ سے ایسا تھا، مجھے خود سے بھی عجیب سی کوفت ہونے لگی۔ دل کی دھڑکن پہلے سے زیادہ تیز ہوچکی تھی اور اب باقاعدہ مجھے اپنے سینے کی بائیں طرف درد محسوس ہونے لگا تھا۔
ارے، یہ چائے کامی نے کیوں پی لی؟ تم نے بتایا نہیں کہ اس کے لیے چائے نہیں بنائی تھی۔
مجھے اماں کی آواز سنائی دی جو میری بیگم سے کہہ رہی تھیں۔
اوہ، یہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ بیگم کی آواز سنائی دی۔
میں جلدی جلدی کپڑے بدل کے باہر آیا۔
کیا ہُوا ماں؟ میں نے پوچھا۔
ارے کچھ نہیں، تمہارے لیے چائے نہیں بنائی تھی، یہ بھائی کے لیے تھی جو تم نے پی لی۔ وہ اب آئے گا تو چائے مانگے گا۔،،
اماں نے کہا اور چولہا جلا کر اس پر توا رکھ دیا۔
ارے یار، مجھے بتا تو دیتیں کہ میرے لیے چائے نہیں بنائی تھی۔،، میں نے بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، اس وقت مجھے اپنی آواز معمول سے زیادہ سخت محسوس ہوئی۔
بیگم کوئی جواب دیئے بغیر بیٹی کے کپڑے صاف کرتی رہی جہاں کہیں کہیں بسکٹ کے ذرات چپکے نظر آرہے تھے۔
اماں توے پر روٹی ڈالتے ہوئے بھی بڑبڑاتی رہیں۔
میں ہونق بنا کھڑا رہا کہ بیگم کوئی وضاحت دے گی مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
ارے بھئی جواب تو دو، چائے کیوں نہیں بنائی میرے لیے اور اگر نہیں بنائی تھی تو بتا تو دیتیں۔
میں نے اسی لہجے میں کہا۔
اپنی بیوی سے پوچھو، مجھ سے کیا کہہ رہے ہو۔،،
اماں نے توے پر روٹی کو الٹتے پلٹتے ہوئے میری طرف دیکھے بغیر کہا۔
اُسی سے پوچھ رہا ہوں، اماں۔۔۔ اور آپ نے بھی سارے جہان کی کہانیاں سنادیں مگر یہ نہیں بتایا کہ تمہارے لیے چائے نہیں بنی۔
مجھے اپنا بلڈ پریشر بڑھتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
ایک کپ چائے کا کیا مسئلہ ہے، میں دوبارہ بنادوں گی۔ بیوی نے اسی طرح بیٹی کے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا اور ٹیبل پر پڑی چیزوں کو ادھر ادھر کرتی رہی۔
کرتی کیا ہے یہ سارا دن پوچھو اس سے۔،،
اماں نے کہا اور روٹی کو توے پر الٹتی پلٹتی رہیں۔
ارے تو ماں میری، تم بتادیتیں ناں مجھے۔،، میری آواز میں وہی تیزی برقرار رہی۔
مجھے کیا پتہ تھا کہ تم آتے ہی چائے اٹھا لوگے۔
اماں نے اسی بے نیازی سے جواب دیا۔
ارے یار یہ تو روٹین ہے، روز اسی طرح شام کو گھر آکے چائے پیتا ہوں، آج ایسی کون سی نئی بات ہوگئی۔،، مجھے اس گول مول سے بات سے چڑ ہونے لگی۔
مجھے نہیں پتہ، اپنی بیوی سے پوچھو۔،، اماں کی وہی رٹ قائم تھی۔
ارے بھئی جواب تو دو۔ میرے چیخنے سے بیٹی ڈر کر رونے لگی اور بیگم اسے گود میں لے کر پچکارنے لگی۔
اماں روٹیاں بنا لیں تو میں بنا دیتی ہوں، ایک کپ چائے کا کیا مسئلہ ہے۔،، بیگم نے کہا اور بیٹی کو لے کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔
ایک کپ چائے مسئلہ نہیں ہے، کمیونیکیشن مسئلہ ہے، تم پچھلے دو گھنٹے سے مجھ سے فون پر، میسج پر بات کررہی ہو مگر تم نے ایک بار بھی نہیں بتایا کہ آپ کے لیے چائے نہیں بنائی۔ یہاں اماں کے ساتھ کھڑے کھڑے انہوں نے ٹوٹو کی دن بھر کی کارروائیاں بتادیں مگر یہ نہیں کہا کہ تمہارے لیے چائے نہیں بنائی۔
میں نے اس کے پیچھے چیختے ہوئے کہا۔
ارے بھئی ہم پر تو نہ چلائو، اپنی بیوی سے پوچھو، اسی نے کہا تھا کہ ویکسین لگے گی تو نہیں پئیں گے چائے۔،، اماں نے کہا۔
ہاں ہاں، ٹھیک ہے، مگر مجھے تو بتاتا ناں کوئی۔ مجھے کیا پتہ کہ میرے کھانے پینے کے بارے میں بیگم صاحبہ کیا کیا حکم صادر فرمارہی ہیں۔،، غصے کے مارے میرے ہاتھوں پیروں سے چنگاریاں پھوٹنے لگی تھیں۔
تو اسی سے پوچھو نہ جا کر، مجھ سے کیا کہہ رہے ہو۔ کھانا بنادیا ہے، جب چاہے کھالینا۔،، اماں نے کہا اور چولہا بند کرکے اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔
میں پائوں پٹختا ہوا اپنے کمرے میں گیا تو بیگم، بیٹی کے کپڑے تبدیل کروارہی تھی۔
ایک کپ چائے کے لیے اتنا ہنگامہ کیوں کررہے ہیں آپ، میں نے کہا نہ بنادیتی ہوں۔،،
ارے یار، پھر وہی ایک کپ، ایک کپ کی رٹ لگارکھی ہے، تم کیا سچ مچ احمق ہو یا میرا بی پی بڑھانے کے لیے ایسا کررہی ہو۔؟
میرا غصہ اب شدید ہوچکا تھا اور مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ غصہ عورت کی حماقت پر ہے، دفتری جبر پر ہے یا اس روز مرہ کی زندگی پر ہے جس میں سوائے نوکری اور گھریلو ذمے داریوں کے کوئی خوشی اور مزیداری نہیں تھی۔
گڑیا سورہی ہے، شور نہ مچائیں، ہم بعد میں بات کریں گے۔ اس نے کہا اور بیٹی کو گود میں لٹا کر تھپکنے لگی۔
یار یہ کوئی مسئلہ کشمیر ہے کیا اس پر بیٹھ کر بات کریں گے،، میرا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔ ایک سیدھی سی بات ہے تم نے میرے لیے چائے نہیں بنوائی تھی تو مجھے بتادیتی، میرا موڈ ہوتا تو میں خود بنالیتا، ایک کپ چائے بنانا کیا مسئلہ ہے؟
یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں ایک کپ چائے بنانا کیا مسئلہ ہے۔ آپ نے ایسے ہی بلاوجہ اتنا ہنگامہ کھڑا کردیا،، اس نے اسی طرح بیٹی کو تھپکتے ہوئے کہا۔
ارے یار پھر وہی بات، مسئلہ چائے کا نہیں ہے، کمیونیکیشن کا ہے، تم نے ایم بی اے کیا ہوا ہے اور تمہیں کمیونیکیشن کی اہمیت نہیں معلوم۔ ایک بندے کو جب آپ کسی چیز کے بارے میں بتائیں گے نہیں تو اسے کیسے پتہ چلے گا؟
میں نے کہا اور پائوں پٹختا ہوا ڈرائنگ روم میں جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ سینے اور کندھوں کے بعد اب میری ٹانگوں میں بھی درد ہونے لگا تھا، میں نے ٹانگیں سیدھی کیں اور چھوٹا کُشن منہ پر رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ بیگم سے مزید بات کرنا اب مجھے فضول لگ رہا تھا، وہ ابھی تک ایک کپ چائے پر اٹکی ہوئی تھی جبکہ میں منطق ڈھونڈ رہا تھا کہ مجھے اس ساری صورتحال کے بارے میں نہ بتانے کے پیچھے کیا منطق ہوسکتی ہے۔
اگلے دوچار دن تک ہم دونوں ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے سے رہے اور اماں الگ منہ پھلائے گھومتی رہیں۔
پہلی ویکسین کے بعد جس طرح بخار، جوڑوں میں درد اور بے زاری کی جو کیفیت طاری ہوئی تھی، دوسری ڈوز کے بعد بھی ویسی ہی کیفیات رہیں۔ میڈیا میں ایسی خبریں بھی گردش کررہی تھیں کہ ویکسین کے بعد بھی لوگ کورونا کا شکار ہورہے ہیں۔ میں نے دفتر سے دو دن کی چھٹی لے لی تھی اور یہ دو دن بھی ایسے ہی سوتے، جاگتے بخار اور بے زاری کی کیفیت میں گزر گئے۔ تیسرے دن معمول کے مطابق دفتری امور نمٹانے کے بعد گھر آیا تو بھائی اپنے دفتر سے شاید جلدی گھر آگیا تھا اور اب ڈرائنگ روم میں ٹوٹو کو گود میں لیے چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔
کیا ہوا آج جلدی آگئے۔ میں نے صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتارتے ہوئے پوچھا۔
ہاں بس طبیعت ذرا مضمحل تھی تو گھر آگیا، ویکسین کے بعد جو کیفیت آپ کی ہوئی تھی مجھے بھی ویسا ہی لگ رہا ہے،، اس نے دائٰیں ہاتھ سے اپنا بایاں کندھا دباتے ہوئے کہا۔
کوئی پین کلر لے کے تھوڑا آرام کرلو ایک دو دن میں بہتر ہوجائے گی طبیعت،، میں نے اسے مشورہ دیا۔ چائے کے ساتھ کچھ کھا لیتے۔،،
نہیں کچھ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا بس چائے پی ہے، تھوڑی دیر لیٹ جاتا ہوں، سر بھاری ہورہا ہے،،
ٹوٹو میز پر رکھی چیزوں میں ہاتھ مار رہی تھی جبکہ بیگم سامنے کچن میں کوئی کام کررہی تھی۔
ہاں تم اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو میں بھی چینج کرکے آتا ہوں، پھر چائے پی کر لیٹوں گا تھوڑی دیر۔،،
میں اس سے کہہ کر واش روم چلا گیا، کپڑے بدلتے ہوئے مجھے بیگم کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی جو شاید ٹوٹو کو ڈانٹ رہی تھی، اس نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے چائے کا کپ گرادیا تھا۔
ابھی ہاتھ جل جاتا تمہارا بے وقوف، ہر وقت اچھلتی کودتی رہتی ہو،،
ارے نہیں بھابھی، کچھ نہیں ہوا، بچی ہے،، بھائی شاید ابھی وہیں تھا۔
ارے نہیں بھئی، تمہیں نہیں پتہ، اُس دن بھی تمہارے بھیا نے ایک کپ چائے کے لیے اتنا ہنگامہ کردیا تھا۔
بیگم کی تیز آواز آئی اور مجھے لگا کہ اس نے یہ فقرہ مجھے ہی سنانے کے لیے کہا ہے، میرے دماغ میں غصے کی ایک شدید لہر کوند گئی اور میں واش روم میں کھڑے کھڑے دانت کچکچا کر رہ گیا۔