!!!ایسا لگتا ہے دوسرا ہوں میں

ایسا لگتا ہے دوسرا ہوں میں

یا پھر اپنا ہی شائبہ ہوں میں

تم نے کشتی بنائی تھی ! ہے نا؟

اک سمندر بنا رہا ہوں میں

اُن کو اچھّے سے جانتے ہیں سب

دیکھا دیکھا ، سنا سنا ہوں میں

آپ اپنی ہی دید سے محروم

آپ اپنا ہی آئینہ ہوں میں

اپنے بارے میں رائے دینی ہے !

یعنی خود سے کبھی ملا ہوں میں ؟

میں ہی میں ہوں تمام چہروں میں

اپنی آنکھوں میں بس گیا ہوں میں

تُو جو میرا نہیں تو کیوں ہے تُو ؟

میں جو کچھ بھی نہیں تو کیا ہوں میں

2

وہ جو ہر زاویے سے بہتر ہے

وہ علاقہ زمیں سے باہر ہے

کوئی قطرہ ہے بحرِ آوارہ

کوئی منّت کشِ سمندر ہے

جھانکتی ہے بہار کھڑکی سے

ایک پتہ گلی کے اندر ہے

تیرے نیزے کو خوش کروں کیسے ؟

میرے کاندھے پہ ایک ہی سر ہے

میں ہوں روشن فصیل زنداں پر

تیرگی ہے کہ آسماں بھر ہے

آپ “pizza” تو کھا رہے ہیں مگر

آپ لوگوں کے دل میں “burger” ہے

خاک ہونے کی آرزو شہروز

آگ ، پانی ، ہوا سے بہتر ہے

3

درد آمادہ نہ ہو جب اپنے ہونے کے لیے

گریہ زادے بھی ترس جاتے ہیں رونے کے لیے

بیٹھے بیٹھے خواب سی لگتی ہے دنیا اور کبھی

خواب میں بے چین ہوجاتے ہیں سونے کے لیے

یوں بھی ہوتا ہے کرو کچھ اور ہو جاتا ہے کچھ

کتنی دیواریں اٹھا رکھی ہیں “کونے” کے لیے

یوں بھی ہوتا ہے کہ کچھ پانے کی خواہش ہی نہ ہو

اور کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا ہے کھونے کے لیے

یوں کرو شہروز اپنے گرد پہلے پھیل جاؤ

اور پھر ڈھونڈو دلیلیں اپنے ہونے کے لیے

ـــــــــــــــــــــــ شہروز خاور